Great Warriors

6/recent/ticker-posts

بیت المقدس، پانچ ہزار برس قدیم شہر

یروشلم دنیا کا وہ واحد شہر ہے جو بیک وقت تین بڑے مذاہب کا مقدس شہر مانا جاتا ہے۔ مسلمان اسے نہایت عزت اور تکریم کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ مسلمانوں کا عقیدہ ہے کہ یہی قبل اول تھا اور پیغمبر اسلام ﷺ نے معراج پر جانے سے پہلے اسی شہر میں واقع مسجد اقصیٰ میں تمام نبیوں کی امامت فرمائی تھی۔ یہیں سے آپ ﷺ معراج پر تشریف لے گئے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ مسلمان اور مسیحی ایک ہزار سال تک اس شہر پر اپنا قبضہ حاصل کرنے کے لئے برسر پیکار رہے ہیں۔ 

یروشلم کے لفظی معنی: تاریخی روایات کے مطابق لفظ ''یروشلم‘‘ دو عبرانی الفاظ '' یرو ‘‘ اور '' شیلم ‘‘سے ملکر بنا ہے جس کے معنی ''امن کا ورثہ ‘‘(Inheritance Of Peace) کے ہیں۔ یہودیوں کے مطابق حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اسے جریح Jereh کا نام دیا جس میں بادشاہ شالم نے 2008 قبل مسیح میں ''شیلم ‘‘ کا اضافہ کر دیا۔ مسلمانوں نے اس شہر کا نام القدس یعنی پاکیزہ شہر رکھا جس نے بیت المقدس کے نام سے شہرت پائی ۔

یروشلم کی تاریخ: ماہرین آثار قدیمہ کہتے ہیں کہ 5000 قبل مسیح میں بھی یروشلم میں انسانی آبادی کے آثار ملے ہیں۔ اس لحاظ سے یہ دنیا کے قدیم ترین شہروں میں سے ایک ہے۔ تاریخ کی کتب میں حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت لوط علیہ السلام کا ذکر ملتا ہے جنہوں نے بیت المقدس کی طرف ہجرت کی تھی۔ پھر حضرت یعقوب علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق مسجد بیت المقدس (مسجد اقصیٰ) کی بنیاد رکھی۔ 1000 قبل مسیح میں حضرت داؤد علیہ السلام نے شہر کو فتح کر کے اپنی حکومت کا دارلخلافہ بنا لیا۔ جبکہ 960 قبل مسیح میں حضرت داؤد علیہ السلام کے بیٹے حضرت سلیمان علیہ السلام نے ہیکل سلیمانی تعمیر کرایا۔ 589 قبل مسیح میں شاہ بابل ( قدیم عراق) بخت نصر نے بیت المقدس شہر کو مسمار کر کے یہودیوں کو ذلت آمیز طریقے سے بے دخل کر دیا۔ وہ ایک لاکھ یہودیوں کو غلام بنا کر اپنے ساتھ عراق لے گیا ۔ طویل عرصے تک یرو شلم ویرانی کی تصویر بنا رہا ۔ 

ایک سو سال بعد بیت المقدس ایک پر رونق شہر بن چکا تھا۔ 539 قبل مسیح میں بخت نصر کے بعد فارس کے شہنشاہ روش کبیر (سائرس اعظم) نے بابل پر تابڑ توڑ حملوں کے بعد بابل اور یروشلم پر قبضہ کر لیا۔ اس نے یہودیوں کو واپس آنے کی اجازت دے دی۔ ہیرود اعظم کے زمانے میں یہودیوں نے بیت المقدس اور ہیکل سلیمانی دوبارہ تعمیر کر لیا۔ لیکن 70 عیسوی میں رومی جنرل ٹا ئٹس نے ہیکل سلیمانی کو مسمار اور شہر یروشلم کو تباہ و برباد کر دیا۔ چوتھی صدی عیسوی میں رومیوں نے مسیحیت قبول کر لی اور بیت المقدس میں گرجا گھر تعمیر کرا نا شروع کر دئیے۔ جب نبی کریم ﷺ معراج پر تشریف لے گئے تو 2 ہجری بمطابق 624 عیسوی تک بیت المقدس پر مسلمانوں ہی کا قبضہ تھا۔ حکم الہٰی سے کعبہ (مکہ) کو قبلہ قرار دیا گیا۔ 639 عیسوی میں عہد فاروقی میں عیسائیوں سے ایک معاہدے کے تحت بیت المقدس پر مسلمانوں کا قبضہ ہو گیا۔ 691 عیسوی میں اموی حکمران نے قبۃ الصخرا (ڈوم آف دا راک ) تعمیر کرایا۔ 1099 عیسوی میں پہلی صلیبی جنگ میں صلیبیوں نے بیت المقدس پرقبضہ کر لیا جس میں 70 ہزار کے لگ بھگ مسلمانوں نے جام شہادت نوش کیا ۔

سنہ 1187 میں صلاح الدین ایوبی نے صلیبیوں کو شکست دے کر شہر سے نکال دیا۔ 1229 میں فریڈرک دوم نے دوبارہ مسلمانوں سے یرو شلم حاصل کر لیا۔ لیکن تھوڑے ہی عرصے بعد 1244 عیسوی میں مسلمان دوبارہ یروشلم کو حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئے ۔ 1517عیسوی میں سلطان سلیم اول نے یروشلم کو عثمانی سلطنت کا حصہ بنا ڈالا۔ مسیحی اپنی شکست کو بھول نہ سکے تھے لہٰذا 1917 میں انگریز جنرل ایلن بی عثمانیوں کو شکست دینے میں کامیاب ہو گیا۔ جس کے بعد انگریز فوجوں نے شہر کا قبضہ حاصل کر لیا۔ تاریخ کی کتابوں میں لکھا ہے کہ باب الخلیل کے راستے شہر میں داخل ہوتے وقت یروشلم کے تقدس کا احترام کرتے ہوئے وہ پیدل شہر میں داخل ہوا۔1947 ء میں اقوام متحدہ نے یروشلم اور فلسطین کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا ، مشرقی حصہ فلسطینیوں اور مغربی حصہ یہودیوں کے حوالے کر دیا گیا۔ پھر دو عشروں تک یروشلم کا مشرقی حصہ اردن کے اقتدار میں رہا لیکن 1967 ء کی جنگ میں اسرائیل نے اس پر قبضہ کر لیا۔ بین الاقوامی برادری نے آج تک یہ قبضہ جائز تسلیم نہیں کیا۔ اس مقدس شہر یروشلم نے بھی کیا قسمت پائی ہے۔ یہ بار بار تخت و تاراج ہوا، آبادیاں بار بار زبردستی جلا وطن ہوتی رہیں، اس کی گلیاں ان گنت مرتبہ میدان جنگ بنیں اور خون کے ندیوں کا منظر پیش کرتی رہیں ۔

خاور نیازی

بشکریہ دنیا نیوز

Post a Comment

0 Comments