Great Warriors

6/recent/ticker-posts

صحرا کا شیر : عمر مختار

اگر کسی سے بھی پوچھا جائے کہ لیبیا کی تاریخ کی عظیم ترین شخصیت کون ہے تو ایک ہی جواب ملے گا، عمر مختار۔ عمر مختار کو صحرا کا شیر (Lion of Desert) بھی کہا جاتا ہے۔ انہوں نے اٹلی کے خلاف لیبیا کی آزادی کی جنگ لڑی۔ اٹلی نے 1911ء میں لیبیا پر قبضہ کیا جب لیبیا سلطنت عثمانیہ کا حصہ تھا۔ انہوں نے 20 برس تک اپنے ملک کو اٹلی کے غاصبانہ قبضے سے آزاد کرانے کیلئے پیہم جدوجہد کی۔ تاریخ نے ثابت کیا کہ عمر مختار جیسے حریت پسند کم ہی پیدا ہوتے ہیں۔ عمر مختار 20 اگست 1858ء کو زویات ضفور میں ایک غریب گھرانے میں پیدا ہوئے۔ ان کا پورا نام عمرالمختار محمد بن فرحات المنفی تھا۔ ابھی وہ کم سن تھے کہ ان کے والد کا انتقال ہو گیا اور ان کی ابتدائی زندگی غربت و افلاس میں گزری۔ شارف الغریانی نے عمرمختار کو اپنا بیٹا بنا لیا۔ شریف الغریانی، مذہبی اور سیاسی رہنما حسین غریانی کے بھتیجے تھے ۔ 

عمر مختار نے ابتدائی تعلیم مسجد میں حاصل کی۔ اس کے بعد انہوں نے آٹھ سال تک جغبوب کی سنوسیہ یونیورسٹی میں تعلیم کا سلسلہ جاری رکھا۔ وہ قرآن پاک کے عالم بن گئے اور امام بھی۔ انہیں اپنے معاشرتی ڈھانچے کے بارے میں بھی بہت آگاہی حاصل ہوئی۔ انہیں قبائل کے اندرونی تنازعات نمٹانے کیلئے چنا گیا۔ عمر مختار جغبوب میں سنوسیہ تحریک کے ساتھ وابستہ ہو گئے۔ اکتوبر 1911ء میں اٹلی اور ترکی کی جنگ کے دوران اٹلی کی بحریہ لیبیا کے ساحلوں تک پہنچ گئی۔ اس وقت یہ علاقہ ترکی کی سلطنت عثمانیہ کے زیرنگیں تھا۔ اٹلی کے امیر البحر لیوگی فراویلی نے ترکی کی حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ یہ علاقہ اٹلی کے حوالے کر دے یا پھر طرابلس اور بن غازی فوری تباہی کیلئے تیار ہو جائیں۔ 

ترکوں اور ان کے اتحادیوں (لیبیا کے شہری) نے ایسا کرنے سے انکار کر دیا۔ اس پر اٹلی نے ان شہروں پر تین دن تک بمباری کی اور پھر اعلان کیا کہ طرابلس کے لوگ اٹلی کے ساتھ ہیں۔ اس کے بعد اٹلی کی فوجوں اور لیبیا کی جماعتوں کے مابین مسلح لڑائیاں شروع ہو گئیں۔ عمر مختار قرآن پاک کے عالم تھے، لیکن اس کے ساتھ ساتھ وہ صحرائی جنگ کے رموز اور اس علاقے کی جغرافیائی حیثیت سے بھی آگاہ تھے۔ صحرائی جنگ کے حوالے سے جو مہارت انہیں حاصل تھی‘ اٹلی کی فوج اس کے برابر نہ آ سکی۔ عمر مختار نے بار بار اپنے چھوٹے گروپوں کے ذریعے کامیاب حملے کیے۔ ان کے جانثاروں نے بڑی مہارت سے حریفوں کے ٹھکانوں کو نشانہ بنایا اور فوجیوں پر حملے کیے۔ انہوں نے سپلائی اور ترسیل کی لائنیں کاٹ دیں۔ 

گوریلا جنگ کے ان حربوں نے اٹلی کی شاہی فوج کو ششدر کر دیا۔ عمر مختار نے بہت جلد اپنے حربوں کو تبدیل کیا، انہیں مصر سے امداد ملتی رہی۔ مارچ 1927ء میں جغبوب کے قبضے اور گورنر اٹیسیوتیروزی کی سخت گیر حکومت کے باوجود عمر مختار نے اٹلی فوجی دستوں کو رحیبہ کے مقام پر حیران کر دیا۔ 1927ء اور 1928ء کے درمیان عمر مختار نے سنوسیہ فوجوں کی تنظیم نو کی جو مسلسل اٹلی کا نشانہ بن رہی تھیں۔ جنرل تبروزی نے بھی عمرمختار کی غیر معمولی صلاحیتوں اور عزم و ہمت کو تسلیم کیا۔ اس نے یہ مانا تھاکہ عمر مختار کی قوت ارادی غیر معمولی اور وہ حوصلے کی چٹان ہیں۔ ایک طرف اٹلی کی فضائیہ عمر مختار اور ان کے ساتھیوں کیلئے مسلسل خطرہ بنی ہوئی تھی تو دوسری طرف مخالف فوجوں کو مقامی مخبروں کا تعاون بھی حاصل تھا۔ 

باایں ہمہ، عمر مختار نے اپنی جدوجہد جاری رکھی۔ 11 ستمبر 1931ء کو عمر مختار پر چھپ کر حملہ کیا گیا اور وہ اسلنطہ کے مقام پر زخمی ہو گئے اور اٹلی کی فوج نے انہیں گرفتار کر لیا۔ اس کے ساتھ ہی عمر مختار کی 20 سالہ جدوجہد کا خاتمہ ہو گیا۔ اس وقت اٹلی میں فسطائی رہنما مسولینی کی حکومت تھی ۔ جو کچھ عمر مختار اور ان کے ساتھیوں کے ساتھ ہو رہا تھا وہ سب مسولینی کے احکامات پر ہو رہا تھا۔ عمر مختار پر اٹلی کی عدالت میں مقدمہ چلایا گیا اور انہیں پھانسی کی سزا سنائی گئی۔ اٹلی کو یہ توقع تھی کہ عمر مختار کی پھانسی کے ساتھ ہی لیبیا کی مزاحمت دم توڑ جائے گی۔ اس وقت عمر مختار مزاحمت کی علامت بن کر سامنے آئے تھے۔ 

انہیں کو 16ستمبر 1931ء کو 20 ہزار لوگوں کے سامنے پھانسی دے دی گئی۔ یہ لوگ اس وقت جنگی قیدیوں کی حیثیت سے رہ رہے تھے۔ عمر مختار کی پھانسی نے مزاحمت کی تحریک ختم نہیں کی بلکہ اس کی شدت میں اضافہ ہوتا گیا۔ 1951ء میں آخرکار لیبیا کو آزادی مل گئی۔ اس طرح عمر مختار نے 1931ء میں اپنی جان کا جو نذرانہ پیش کیا تھا اس کا صلہ لیبیا کے باشندوں کو 20 برس بعد ملا۔ عمر مختار لیبیا کی آزادی کے حوالے سے مزاحمت کا استعارہ تھے، ان کا نام تاریخ سے کبھی حذف نہیں کیا جا سکتا۔ یہاں اس بات کا تذکرہ ضروری ہے کہ عمر مختار کے نام سے ہالی وڈ میں فلم بھی بنائی گئی جو 1980ء میں ریلیز ہوئی۔ اس فلم کی تیاری میں لیبیا کے سابق صدر معمر قذافی نے بھی حصہ ڈالا۔ 

سن 2009ء میں صدر قذافی جب روم گئے تو انہوں نے اپنی قمیص پر عمر مختار کی وہ تصویر لگا رکھی تھی جب وہ اٹلی کی فوج کی قید میں تھے۔ فلم ’’عمر مختار‘‘ میں مرکزی کردار اداکار انتھونی کوئن نے ادا کیا تھا۔ انہوں نے اس کردار میں جتنی جان ڈالی اسے دیکھ کر لگتا تھا کہ ’’صحرائی شیر‘‘ دوبارہ زندہ ہو گیا ہے۔ انتھونی کوئن نے پھانسی کے مناظر کی فلم بندی میں اداکاری کی رفعتوں کو چھو لیا۔ عمر مختار کی طرح انتھونی کوئن نے بھی ان کا کردار ادا کر کے لافانی شہرت حاصل کی۔ فرانز فینن نے بالکل سچ کہا تھا کہ آزادی کی تحریکیں صرف اسی صورت میں کامیابی سے ہمکنار ہوتی ہیں جب قیادت ایک ایسے شخص کے ہاتھ میں ہو جسے عزم کا کوہ گراں کہا جائے۔ بلاشبہ عمرمختار بھی ایسے ہی رہنما تھے۔  

عبدالحفیظ ظفر

Post a Comment

0 Comments