Great Warriors

6/recent/ticker-posts

بیبرس : منگولوں کی موت بننے والا ایک غلام

بارہویں صدی عیسوی میں چنگیز خان کی قیادت میں صحرائے گوبی کے شمال سے خوں خوار منگول بگولا اٹھا جس نے صرف چند دہائیوں میں ہی دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ منگول لشکروں کے سامنے چین، خوارم، وسط ایشیاء، مشرقی یورپ اور بغداد کی حکومتیں ریت کی دیواریں ثابت ہوئیں، منگول حملے کا مطلب بے دریغ قتل عام اور شہر کے شہر کی مکمل تباہی تھی.....دنیا تسلیم کر چکی تھی کہ ان وحشیوں سے مقابلہ ناممکن ہے، منگول نا قابل شکست ہیں، انہوں نے اول خوارزم کی اینٹ سے اینٹ بجائی اور پھر پانچ سو سال سے زائد قائم خلافت عباسیہ کو انجام سے دوچار کیا، انہوں نے خوارزم میں کھوپڑیوں کے مینار بنائے تو بغداد میں اتنا خون بہایا کہ گلیوں میں کیچڑ اور تعفن کی وجہ سے عرصے تک چلنا ممکن نہ رہا۔ اس پرآشوب دور میں مسلمانوں کی حیثیت کٹی پتنگ کی سی تھی، مسلمان نفسیاتی طور پر کسی مقابلے کے قابل نظر نہ آتے تھے. ایسے میں مصر میں قائم مملوک سلطنت ایک مدھم سی امید کی لو تھی وہی سلطنت جس کی بھاگ دوڑ غلام اور غلام زادوں کے ہاتھ میں تھی ''منگول۔ یوروپی ایکسز‘‘ کا اگلا ہدف بھی یہی مسلم ریاست تھی۔

وہ آخری ریاست جس کی شکست مسلمانوں کے سیاسی وجود میں آخری کیل ثابت ہوتی، مملوک بھی اس خوفناک خطرے کا پورا ادراک رکھتے تھے، وہ جانتے تھے آج نہیں تو کل یہ معرکہ ہو کر رہے گا۔ اور یہ معرکہ ہوا۔ سن تھا ستمبر 1260ء کا، اور میدان تھا ''عین جالوت‘‘! منگول مسلم سیاسی وجود کو ختم کرنے سر پر آن پہنچ چکے تھے، کسی طوفان کی طرح ، جو بڑی بڑی سلطنتوں کوخس و خاشاک کی طرح بہا کر لے گئے تھے آج ان کے مد مقابل مملوک تھے جسکی قیادت رکن الدین بیبرس کر رہا تھا، وہی بیبرس جو کبھی خود بھی فقط چند دینار کے عوض فروخت ہوا تھا، کم وسائل اور عددی کمتری کے باوجود بیبرس کو یہ معرکہ ہر حال میں جیتنا تھا۔ مسلمانوں کی سیاسی بقاء اور آزادی کو قائم رکھنے کے لیے آخری سپاہی، آخری تیر اور آخری سانس تک لڑائی لڑنی تھی ۔ طبل جنگ بجا، بد مست طاقت اور جنون کے درمیان گھسمان کا رن پڑا، طاقتور منگول جب اپنی تلوار چلاتے تھے تو ان کا وار روکنا مشکل ترین کام ہوتا تھا لیکن آج جب مملوک وار روکتے تو تلواریں ٹکرانے سے چنگاریاں نکلتیں اور پھر جب جوابی وار کرتے تو منگولوں کے لیے روکنا مشکل ہو جاتا۔

منگولوں نے مملوکوں کو دہشت زدہ کرنے کی بھرپور کوشش کی لیکن یہ وہ لشکر نہیں تھا جو مرعوب ہو جاتا۔ انہوں نے کبھی ایسے جنونی لشکر کا سامنا نہیں کیا تھا ۔ وہ پہلے پسپا ہوئے اور پھر انہونی ہوئی ، منگول میدان جنگ سے بھاگ کھڑے ہوئے، مملوکوں نے انہیں گاجر مولی کی طرح کاٹ کر رکھ دیا، معاملہ یہاں تک پہنچا کہ بھاگتے منگولوں کو عام شہریوں نے بھی قتل کرنا شروع کر دیا۔ اور یہ وہم کہ ''منگول ناقابل شکست ہیں‘‘ ،''عین جالوت‘‘ کے میدان میں ہمیشہ کے لیے دفن ہو گیا۔ ''غلاموں‘‘ نے رکن الدین بیبرس کی قیادت میں مسلم سیاسی وجود کی جنگ جیت لی اور رہتی دنیا تک یہ اعزاز اپنے نام کر لیا۔ اس معرکے کے بعد منگول پیش قدمی نہ صرف رک گئی بلکہ آنے والے برسوں میں بیبرس نے منگول مفتوح علاقے بھی ان سے واپس چھین لیے۔ 

''فتوحات کا باپ‘‘: منگولوں کو عبرت ناک شکست دینے کے بعد دنیا بھر میں اس کی دھاک بیٹھ گی اور وہ ''ابوالفتح ‘‘ یعنی فتوحات کا ابو کہلایا۔ دنیا بھر میں ان کے نام کا ڈنکا بجتا تھا، منگول تو کیا اہل مغرب بھی ان کے نام سے ڈرتے تھے، رکن الدین بیبرس نے اپنی خداداد صلاحیت سے'' منگول یوروپئن نیکسس‘‘ کو بھی توڑ ڈالا ۔ اور صلیبی جنگوں میں بھی فاتح رہا، فرانسیسی بادشاہ کنگ لوئیس نہم کو شکست دینے والی مصری فوج کا بھی کمانڈر تھا، اس نے کمزور اور کم ترقی یافتہ فوج کو بھی فرانسیسی بادشاہ کے سامنے کھڑا کر دیا اور انہیں بھاگنے پر مجبور کیا۔ مسلم دنیا اپنے اس عظیم ہیرو کے متعلق بہت کم جانتی ہے ایک ایسا ہیرو جس نے ان کے سیاسی وجود کی جنگ بڑی بے جگری سے لڑی، جس کی پشت پر کوئی قبیلہ بھی نہ تھا اور جو کبھی فقط چند دینار کے عوض بکا تھا لیکن جو مصائب کا مقابلہ کرنا جانتا تھا جو ہمت نہیں ہارتا تھا اور جو امید کا دامن کبھی بھی نہیں چھوڑتا تھا۔ ترکی النسل بیبرس کے نام کا مطلب ہے کہ امیر، لارڈ، نوبل،۔ یہ حکمران کے معنی میں بی لیا جاتا ہے۔ جبکہ چیتا اس کے عام معنی ہیں۔

غیر ملکی طاقت کا خاتمہ: ۔ اس کا دور شام اور مصر میں قائم مملکت کے تحفظ کے حوالے سے مثالی مانا جاتا ہے، جب اس نے خطے سے یورپی حملہ آوروں کے خوف کا خاتمہ کر دیا تھا۔ وہ ایک ڈھال تھا، اس نے ان علاقوں کو منگولوں اور صلیبی جنگوں کے شوقین مغربی حملہ آروں سے محفوظ بنا دیا تھا، خطے کو لوگ سکھ کا سانس لے سکتے تھے۔ یہی نہیں اس نے مصری سلطنت میں وسعت بھی پیدا کی۔ پیدائش ،

ابتدائی زندگی اور بادشاہت: اس کے آباء او اجداد بحر اسود کے شمال میں واقع ''دشت کپ چک‘‘ کے باشندے تھے، تاہم پیدائش کی تاریخوں کے بارے میں کچھ ابہام پایا جاتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ اس نے 12 دسمبر 1227ء سے 29 نومبر 1228ء کے درمیانی عرصے میں جنم لیا۔ بعض تاریخی کتب میں 1247ء میں اس کی عمر 24 برس درج ہے جس سے سن پیدائش 1223ء بنتا ہے۔ اس کا خاندان منگولوں کے قبیلے سے نکل کر 1242ء میں بلغاریہ پہنچا تھا، لیکن جلد ہی منگولوں نے بلغاریہ کو بھی سرنگوں کر لیا ، جنگ میں منگولوں نے اس کے والدین کو سنگنیوں کی نوک پر لے لیا۔ یہ وحشت ناک منظر وہ کبھی نہیں بھولا۔ بعد میں وہ دو بار بکا، اور یہ خرید و فروخت منگولوں کی موت کی بن گئی۔

پہلے یہ غلام ''سواس‘‘ (Siwas) کی غلام منڈی میں بیجا گیا۔ بعد ازاں وہ دوسری غلام منڈی ''ہما‘‘ (Huma) میں فروخت ہوا، یہ اعلیٰ افسر الہ الدین ادیکن البندوکری اسے ترقی دینے کی نیت سے مصر لے آیا، لیکن قسمت میں ابھی اور سیکھنا لکھا تھا۔ کیونکہ جب اس کے آقا کو ہی حکمران مصر الصالح الایوب نے گرفتار کر لیا تو سبھی غلام بھی زیر حراست چلے گئے۔ بادشاہ ایوب نے بیبرس کو اپنی فوج کا کمانڈر بنا دیا۔ وہ غزہ کے مشرق میں لڑی جانے والی 'جنگ لافوربی ‘ (Battle of La Forbe) میں فاتح بن کر نکلا۔ :1260ء میں منگولوں کوعبرت ناک شکست دینے کے بعد وہ فاتح مصر بنا۔ سیف الدین قتوز جنگ میں گھائل ہونے کے بعد چل بسے۔ 24 اکتوبر کو اس کی رسم تاج پوشی ادا کی گئی، اس کی مقبولیت کا یہ عالم تھا کہ تین بیٹوں میں سے دو تخت (السید الباراخ اور سلامیش ) نشین ہوئے ۔یوں ایک غلام نے مصر میں بھی سلطنت کی بنیاد رکھی۔

ایم آر ملک

بشکریہ دنیا نیوز

Post a Comment

0 Comments