Great Warriors

6/recent/ticker-posts

سلطنت عثمانیہ کیوں زوال پذیر ہوئی؟

نیسویں صدی کے آخری عشروں میں اندرونی ریشہ دوانیوں اور بیرونی سازشوں 
کے نتیجہ میں سلطنت عثمانیہ کی جڑیں کمزور ہو چکی تھیں، اپنے انتہائی عروج کے دور میں یہ سلطنت بڈاپسٹ سے بغداد تک اور کریمیا سے نیل کے ساحل تک پھیلی ہوئی تھی۔ یہ نہ صرف جدید عہد کی سب سے بڑی مسلم ریاست تھی بلکہ اس کا شمار تاریخ کی عظیم ترین اور مدت کے اعتبار سے طویل ترین مسلم مملکتوں میں کیا جا سکتا ہے۔ تقریباً سوا چھ سو برسوں میں 36 سلاطین حکمران رہے۔ سلطنت عثمانیہ بنیادی طور پر فوجی بادشاہت تھی۔ اس دور میں اگرچہ مختلف شعبوں میں بعض اچھے کام بھی ہوئے، رفاہی اداروں اور فنونِ لطیفہ نے خاصی ترقی کی، مگر سلطنت کی ہیئت شخصی حکمرانی اور مطلق العنانی کی تھی۔ 

اس میں عرب، شامی، عراقی، مصری، بربر، کرد، آرمینی، سلاو، یونانی، البانی…غرضیکہ یورپ اور مغربی ایشیا کی بیشتر قومیں شامل تھیں۔ ان سب کے اپنے اپنے رسم و رواج، تہذیب و تمدن، عقائد اور زبانیں تھیں۔ اس سخت گیر نظام کا واسطہ جب یورپ میں جغرافیائی قومیتوں کے ابھرتے ہوئے تصور سے پڑا تو سلطنتِ عثمانیہ کی بنیادیں ہل کر رہ گئیں۔ عرب علاقوں میں سب سے پہلے شمالی افریقہ نے سلطنت عثمانیہ سے علیحدگی اختیار کی لیکن فرانس نے فوج کشی کر کے الجزائر پر قبضہ کر لیا اور بعدازاں اسے باقاعدہ اپنے ملک کا حصہ قرار دے دیا۔ فرانس اس خطے کو جو اہمیت دیتا تھا اس کا ایک ہلکا سا اندازہ اس امر سے ہو سکتا ہے کہ جب دوسری جنگ عظیم کے دوران 1942ء میں امریکا نے الجزائر میں اپنی فوجیں اتاریں تو فرانسیسی وزیرخارجہ نے اس پر امریکہ سے باضابطہ احتجاج کیا تھا۔ 

الجزائر کے بعد فرانس نے تیونس کو اپنی توسیع پسندانہ پالیسی کا شکار بنایا۔ 1881 میں اس پر قبضہ کر کے الجزائر کی طرح اس ملک میں بھی عربی کی جگہ فرانسیسی کو سرکاری زبان کی حیثیت سے نافذ کر دیا۔ خطے کے دوسرے ملکوں کی طرح مصر بھی ایک عرصے تک سلطنت عثمانیہ کے زیرنگیں رہا۔ لیکن قسطنطنیہ کے حکمرانوں نے براہ راست کبھی دل چسپی نہیں لی۔ دارالخلافہ کی عدم دل چسپی، درباری سازشوں اور عمالِ حکومت کی بے حسی کے نتیجے میں مصری عوام کی زندگی اجیرن ہو کر رہ گئی۔ 1619ء کے طاعون میں کوئی ساڑھے تین لاکھ افراد لقمہ اجل بنے۔ 1769ء میں علی بے نامی ایک مقامی سردار نے سلطنت عثمانیہ کے خلاف علم بغاوت بلند کر کے مصر کی آزادی کا اعلان کر دیا۔ یہ وہ وقت تھا جب سلطان قسطنطنیہ روس کے خلاف نبردآزما تھا۔ 

علی بے نے آگے بڑھ کر شام اور عرب پر قبضہ کر لیا۔ 1798ء میں نپولین بونا پارٹ ایک بڑی فوج کے ساتھ اسکندریہ میں اترا لیکن برطانیہ کے ہاتھوں پے در پے ہزیمت اٹھانے کے بعد مغربی ایشیا سے فرانسیسی عمل دخل کا مکمل خاتمہ ہو گیا۔ نپولین کو شکست دینے والی فوج میں محمد علی نامی ایک نوجوان افسر بھی شامل تھا۔ بعد میں یہی شخص جدید مصر کا بانی کہلایا۔ شام، لبنان اور میسوپوٹامیہ ایک طویل عرصہ تک سلطنت عثمانیہ کا حصہ رہے۔ پھر یورپی طاقتوں کی مداخلت کی وجہ سے ترکوں کا اثر آہستہ آہستہ کم ہوتا گیا۔ لبنان اور شام کے معاملات میں فرانس نے براہ راست عمل دخل حاصل کر لیا۔ 

جزیرہ نما عرب کا جنوب مشرقی ساحل پہلے پرتگیزی اور بعد میں برطانوی تسلط میں رہا۔ بیسویں صدی کے آغاز پر ترکی کی سلطنت عثمانیہ تیزی سے روبہ زوال تھی۔ اس صدی کے پہلے عشرے میں اسے بلقان کے علاقوں سے ہاتھ دھونا پڑا۔ اسی اثنا میں پہلی جنگ عظیم شروع ہو گئی۔ ترکی نے جرمنی کا ساتھ دیا اور نتیجتاً شکست کھائی۔ اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے یورپی استعماری طاقتوں نے سلطنت عثمانیہ کو اس کے بیشتر مقبوضات سے محروم کر دیا اور بالآخر سلطنت کا خاتمہ ہو گیا۔

خواجہ محمود جاوید

Post a Comment

0 Comments