Great Warriors

6/recent/ticker-posts

شہنشاہ اکبر کی عظیم فتوحات

مغل بادشاہ شہنشاہ اکبر نے ہمسایہ ریاستوں پر حملے کر کے انہیں اپنی سلطنت میں شامل کر لیا۔ فتوحات کے بعد شہنشاہ ا کبر نے اپنی رعایا سے فیاضانہ سلوک کیا۔ گونڈوں کی ملکہ ورگاوتی کو شکست دینے اور اس کے خزانہ پر قبضہ کرنے کے بعد شہنشاہ اکبر نے چتوڑ کی طرف توجہ کی۔ جونہی اکبر اپنی فوجیں لے کر چتوڑ کی طرف روانہ ہوا، چتوڑ کا رانا ادوے سنگھ وہاں سے بھاگ نکلا۔ اس پر جمیل راٹھور نے چتوڑ کی حفاظت کا ذمہ لیا۔ شہنشاہ اکبر کی تمام توپیں چتوڑ کے قلعہ کو فتح کرنے میں ناکام رہیں۔ ایک دن اکبر نے دیکھا کہ ایک پرشکوہ انسان ان شگافوں کی مرمت کرا رہا ہے جو گولہ باری کی وجہ سے قلعہ میں پیدا ہو گئے تھے۔ اکبر نے شست لگائی، پر شکوہ انسان زمین پر تھا۔ تھوڑی دیر بعد شہر کے بعض حصوں سے آگ کے شعلے اُٹھتے دکھائی دیئے۔ 

راجہ بھگوان داس نے بتایا کہ جوہر کی رسم ادا ہو رہی ہے۔ معلوم ہوا کہ اکبر نے جس شخص کا نشانہ کیا تھا وہ جمیل راٹھور تھا۔ چتوڑ کے لئے راجپوت سپاہیوں نے بہادری سے لڑنا شروع کیا۔ مرد اور عورتیں ایک ہی صف میں حملہ آوروں کا مقابلہ کر رہی تھیں۔ آٹھ ہزار بہادر راجپوت چتوڑ کی حفاظت میں کام آتے۔ اکبر پر وہی وحشت سوار ہوئی جو کبھی سکندر یونانی کو گھیر لیتی تھی۔ اکبر کے حکم سے چتوڑ میں قتل عام کیا گیا۔ راجپوتوں کی بہادری سے اکبر اس قدر متاثر ہوا کہ اس نے جمیل اور اس کے نوجوان بیٹے کے بت بنوا کر دہلی میں نصب کرائے۔ اکبر اپنی سلطنت کو ایک سمندر سے دوسرے سمندر تک پھیلانا چاہتا تھا۔ اب اس نے مغرب کا رخ کیا۔ سمندر اور اس کی سلطنت کے درمیان گجرات حائل تھا۔

گجرات کی راجد ھانی احمد آباد تھی۔ اب اکبر گجرات کی طرف روانہ ہوا۔ گجرات پر قبضہ کرنے میں اُسے زیادہ مشکلات کا سامنا نہیں کرتا پڑا۔ اکبر نے پہلی مرتبہ اس سمندر کو دیکھا جو ہندوستان اور یورپ کو ملاتا ہے۔ اس کے ذہن میں مغل بحریہ بنانے کا خیال نہ آیا۔ اکبر سمندر کی موجوں کو گن رہا تھا کہ ابراہیم حسین میرزا نے سرنال میں بغاوت کر دی۔ اس بغاوت کو دبانے اور میرزا کو شکست دینے کے بعد اکبر نے سورت کی بندر گاہ کا محاصرہ کیا۔ جب اُسے معلوم ہوا کہ سورت کی مدد پرتگیزی کر رہے ہیں تو اس نے پرتگیزوں سے صلح کے لئے بات چیت کی۔ پرتگیزی وائسرائے نے انطونیو کو اکبر سے تصفیہ کے لئے بھیجا۔ سورت نے ہتھیار ڈال دیئے۔ پرتگیزوں سے اکبر نے اپنا تعلق اس طرح قائم کیا۔ وہ پرتگیزوں سے ان کے مذہب اور ان کی معاشرت کے متعلق معلومات حاصل کرنا چاہتا تھا۔ اکبر آگرہ پہنچا۔ گجرات میں بغاوت ہو گئی۔

اکبر پھر گجرات کی طرف روانہ ہوا۔ دوسری مہم میں اکبر نے فوجی قابلیت اور بہادری کا ثبوت دیا۔ ایک ایک دن میں پچاس پچاس میل کا سفر کیا۔ آگرہ سے احمد آباد میں وہ گیارہ دنوں میں پہنچ گیا۔ چھ سو میل ! اکبر کے ہمراہ صرف تین ہزار سپاہی تھے۔ محمد حسین میرزا بیس ہزار سپاہیوں سمیت اکبر کے خلاف اٹھا۔ جونہی اُسے شاہی فوجوں کی آمد کا پتہ چلا تو میرزا چلایا’ ہمارے جاسوسوں نے اطلاع دی ہے کہ اکبر چودہ دن پہلے فتح پور سیکری میں تھا۔‘ انہیں اکبر کی آمد کا یقین نہیں تھا۔ اکبر نے ایک شدید حملہ کیا۔ میرزا کی فوج کو شکست ہوئی۔ بنگال میں شہزادہ داؤد نے بغاوت کر دی۔ بہار پر افغان سرداروں کا قبضہ تھا۔ دائود نے اپنی طاقت پر بھروسہ کرتے ہوئے اکبر سے لڑنے کی تیاری کر لی۔ اکبر اس وقت گجرات میں تھا۔ 

اس نے بوڑھے جرنیل منعم خاں کو بغاوت فرو کرنے کے لئے بھیجا۔ لیکن اسے ناکامی ہوئی۔ اب اکبر بنگال کی طرف روانہ ہوا۔ اکبر کی ساری گزشتہ مہموں سے یہ مہم نرالی تھی۔ کیونکہ اس مہم میں گنگا کو ٹرانسپورٹ کے لئے استعمال کرنا تھا۔ شہنشاہ نے اپنی فوج کا ایک حصہ خشکی کے راستے بھیج دیا اور باقی فوج کو ایک بیڑے پر سوار کیا۔ یہ بیڑہ بہت زیادہ شان وشوکت رکھتا تھا۔ بعض کشتیوں کو باغوں میں تبدیل کر دیا گیا تھا۔ دائود کے خواب و خیال میں بھی یہ بات نہیں آسکتی تھی کہ اکبر برسات میں اتنی بڑی مہم کو جاری رکھ سکے گا۔ اکبر نے پٹنہ پر قبضہ کر لیا۔ پٹنہ سے واپسی پر شہنشاہ کے ذہن میں عبادت خانہ بنا نے کا خیال پیدا ہوا۔ جہاں وہ مختلف فرقوں کے مسلمان علماء سے تبادلہ خیال کر سکے۔ چنانچہ اس نے شیخ سلیم چشتی کے مقبرہ کے قریب ایک شاندار عمارت بنوائی…بہار اور بنگال میں پھر بغاوت ہو گئی۔ 

بعض درباریوں نے اکبر کے بھائی مرزا محمد حکیم، حاکم کا بل کو دعوت دی کہ وہ ہندوستان پر حملہ کر کے اکبر کی جگہ خود بادشاہ بن جائے۔ مرزا محمد حکیم کو اکبر نے شکست دی۔ شہنشاہ اکبر نے پھر سے فتوحات کی طرف توجہ کی۔ کشمیر اور سندھ کی فتح کے بعد اس نے اڑیسہ، بلوچستان اور قندھار کو اپنی سلطنت میں شامل کیا۔ دکن ابھی باقی تھا۔ شہنشاہ کا خیال تھا کہ دکن کی ریاستیں اس کی فتوحات سے مرعوب ہو کر اس کی قیادت کو مان لیں گی۔ اکبر نے عبدالرحیم خان خانان اور شہزادہ مراد کو احمد نگر فتح کرنے کے لئے بھیجا۔ احمد نگر کی ملکہ چاند بی بی نے ڈٹ کر مقابلہ کیا۔ مغل اُسے شکست نہ دے سکے۔ چاند بی بی اور اکبر میں صلح ہو گئی۔ اب اکبر خود دکن گیا۔ احمد نگر کو فتح کرنے کے بعد اس نے خاندیس کو فتح کرنا چاہا۔ 

ایسر گڑھ کے قلعہ کا محاصر ہ کر لیا گیا لیکن بے سود۔ آخررشوتوں کو کام میں لاکر اکبر نے اس قلعہ پر قبضہ کر لیا۔ دکن کی مہم پر روانہ ہوتے وقت اکبر نے سلیم کو آگرہ میں انتظام سلطنت کے لئے چھوڑ دیا تھا۔ سلیم نے بغاوت کے لئے اچھا موقع پایا۔ الہٰ آباد پہنچ کر اس نے اپنی بادشاہت کا اعلان کر دیا۔ بہت بڑی فوج جمع کرنے کے بعد وہ آگرہ کی طرف بڑھا۔ اکبر دکن سے واپس آچکا تھا۔ اس نے شاہی قاصدوں کو فرمان دے کر سلیم کے ہاں بھیجا۔ اس فرمان کی رو سے شہنشاہ اکبر نے اپنے بیٹے سلیم کو بنگال اور بہار کا گورنر مقرر کیا تھا۔ لیکن سلیم نے ایک نہ سنی۔۔۔آخر کار کسی نہ کسی طرح سلیم کو ترغیب دلا کر آگرہ میں پہنچا دیا۔ اکبر کی والدہ سلیم کا استقبال کرنے کے لئے آگرہ سے کئی میل دور گئی۔ اس کی کوششوں سے باپ بیٹے میں ملاقات ہوئی۔ سلیم نے معافی مانگی۔ اکبر نے اپنا عمامہ سلیم کے سر پر رکھ دیا۔

باری علیگ

بشکریہ دنیا نیوز

Post a Comment

0 Comments