Great Warriors

6/recent/ticker-posts

معرکۂ عین جالوت کا فاتح رکن الدین بیبرس جس سے منگول بھی ڈرتے تھے

آج ہم آپ کو ایک ایسے غلام کی کہانی سنائیں گے جو سلطانوں کی طرح مشہور ہوا اور جس نے اپنی بہادری سے نہ صرف حکومت حاصل کی بلکہ کئی ظالموں کو منطقی انجام تک پہنچایا فتوحات کی ایسی مثالیں قائم کیں کہ بڑے بڑے جنگجو اس کے نام سے تھر تھر کانپتے تھے، تاریخ منگولوں کے ظلم سے بھری پڑی ہے لیکن اس ''غلام ‘‘ نے منگولوں کی ایسی کمر توڑی کہ وہ دوبارہ سر نہ اٹھا سکے۔ یہ غلام ایک عظیم فاتح، دلیر جنگجو اور عالم اسلام کا ایسا ہیرو بنا جس کو تاریخ کبھی بھلا نہ پائے گی۔ جی ہاں ! ہم بات کر رہے ہیں سلطان رکن الدین بیبرس کی جو 19 جولائی 1223ء کو دشتِ قپچاق میں ایک خانہ بدوش قبیلے میں پیدا ہوئے، قپچاق ترک عہد وسطیٰ میں یورپ و ایشیا ء کے درمیانی علاقے میں آباد تھے بیبرس ہلاکو خان اور غیاث الدین بلبن کا ہم عصر تھا اور کہا جاتا ہے کہ بیبرس کو غلام بنا کر فروخت کیا گیا تھا پھر وہ اپنے زورِ بازو سے سلطانِ مصر و شام بنا۔ 

الملک الظاہر رکن الدین بیبرس کا اصل نام البند قداری، لقب ابولفتوح تھا لیکن بیبرس کے نام سے شہرت پائی ۔ بیبرس سیف الدین قطز کا جانشین اور مصری افواج کے ان کمانڈروں میں سے ایک تھا جس نے فرانس کے بادشاہ لوئس نہم کو ساتویں صلیبی جنگ میں شکست دی۔ رکن الدین بیبرس (620ھ-676ھ) کے 3 کارنامے تاریخ میں ہمیشہ یاد رکھے جائیں گے۔ پہلا کارنامہ یہ تھا کہ بیبرس نے سلطان سیف الدین قطز کے ساتھ مل کر منگولوں کو معرکۂ عین جالوت میں عبرتناک شکست دی۔ یہ مشہور جنگ 25 رمضان 658ھ کو لڑی گئی، اس جنگ میں منگولوں کا وہ حال کیا کہ اسکے بعد وہ دوبارہ سر اٹھانے کے قابل نہ رہے اس طرح حجازِ مقدس اور مصر منگولوں کے ظلم سے ہمیشہ کیلئے محفوظ ہو گئے۔ عین جالوت (فلسطین میں) وہی جگہ ہے جہاں طالوت کے مختصر لشکر نے جالوت کے لشکرِ جرار کو شکست دی تھی۔

یہ سلطان رکن الدین بیبرس کا دوسرا شاندار کارنامہ نہیں تو اور کیا ہے کہ اس نے تقریبا ًپونے دو صدی تک چلی صلیبی جنگوں کا خاتمہ کیا اور صلیبیوں کو ایسی عبرتناک شکست دی کہ پھر وہ دوبارہ حملہ کرنے کے قابل نہ رہے۔ بیبرس کا تیسرا کارنامہ یہ تھا کہ 659ھ میں مصر میں رسمی سہی مگر خلافتِ عباسی دوبارہ قائم کی جبکہ مغلوں نے بغداد کو تہس نہس کر کے خلافتِ عباسی کا بالکل خاتمہ کر دیا تھا۔ بغداد کو تباہ کرنے کے بعد جب ہلاکو خان کی فوجیں شام کی طرف بڑھیں تو بیبرس اور ایک مملوک سردار سیف الدین قطز نے مل کر عین جالوت کے مقام پر ان کو فیصلہ کن شکست دی اور منگول افواج کو نکال باہر کیا۔ بیبرس کا یہ بہت بڑا کارنامہ ہے کہ اس نے مصر و شام کو منگولوں کی تباہ کاریوں سے بچایا۔ اس نے مصری سلطنت کی شمالی سرحد ایشیائے کوچک کے وسطی علاقوں تک پہنچا دی۔ بیبرس کا ایک اور بڑا کارنامہ شام کے ساحل پر قابض یورپی حکومتوں کا زور توڑنا تھا۔ 

یہ حکومتیں پہلی صلیبی جنگ کے زمانے سے شام کے ساحلی شہروں پر قابض تھیں۔ نور الدین زنگی اور صلاح الدین ایوبی نے اگرچہ اندرون ملک اور فلسطین سے صلیبیوں کو نکال دیا تھا لیکن ساحلی شہروں پر ان کا اقتدار عرصے تک قائم رہا۔ ان کو بحری راستے سے یورپ سے معاونت میسر رہتی تھی۔ بیبرس نے عین جالوت میں منگولوں کے ساتھ اتحاد کرنے کی کوشش کرنے پر 1268ء میں مسیحی سلطنت انطاکیہ کا خاتمہ کیا۔ انطاکیہ کی سلطنت کا خاتمہ 1271ء میں نویں صلیبی جنگ کا باعث بنا جس کی قیادت انگلستان کے شاہ ایڈورڈ نے کی مگر وہ بیبرس سے کوئی بھی علاقہ چھیننے میں ناکام رہا۔ بیبرس نے اپنی سلطنت کو جنوب میں سوڈان کی طرف بھی وسعت دی۔ اپنی ان فتوحات اور کارناموں کی وجہ سے بیبرس کا نام مصر و شام میں صلاح الدین ایوبی کی طرح مشہور ہوا۔

بیبرس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ بھیس بدلنے کا شوقین تھا۔ کبھی وہ گداگر کا روپ دھارتا اور کبھی مہمان بن کر دسترخوان پر اکیلا مزے اڑاتا دکھائی دیتا، بلا کا حاضر دماغ تھا۔ فطری طور پر جنگجو تھا اسکی عسکری صلاحیتیں دشت و صحرا میں پروان چڑھیں۔ اسے دمشق میں تقریباً 500 روپے میں فروخت کیا گیا وہ بحری مملوکوں کے جتھوں میں بطور تیر انداز شامل ہوا اور بالآخر انکا سردار بن گیا۔ وہ اکیلا خاقان اعظم کی یلغار کے سامنے حائل ہوا اور منگولوں کو تہس نہس کر دیا اسکے جوابی حملے نے فرانسیسی بہادروں کی کمر توڑ کر رکھ دی تھی بلا کا خوش طبع انسان تھا گھوڑے پر سوار ہو کر اکیلا نکل جاتا تو دوسرے دن فلسطین میں نمودار ہوتا اور چوتھے دن صحرائے عرب میں ملتا ۔ بڑا حوصلہ مند تھا ایک ایک دن میں میلوں کی مسافت طے کر لیتا۔ 

جب سلطان بنا تو اس کے مشیروں اور وزیروں کو بھی اسکے عزائم کا علم نہ ہوتا ہر شخص کو یہی خیال رہتا ممکن ہے سلطان اسکے قریب بیٹھا اسکی باتیں سن رہا ہو ، لوگ اسکے کارنامے سن کر خوش ہوتے لیکن اسکے تقرب سے گھبراتے۔ بیان کیا جاتا ہے کہ ایک دن بیبرس نے ایک تاتاری سپاہی کا بھیس بدلا اور تن تنہا شمال کی طرف غائب ہو گیا کئی دن سفر کرنے کے بعد وہ تاتاریوں کے علاقے میں داخل ہوا اور جگہ جگہ گھوم پھر کر حالات کا جائزہ لینے لگا ۔ انگریز مصنف ہیر لڈیم اس کے بارے میں لکھتا ہے کہ مختلف زبانوں میں مہارت رکھنے کی وجہ سے وہ ہر قسم کے لوگوں میں گھل مل جاتا اسلئے اس پر کسی کو شبہ نہ ہوا ایک دن اس نے تاتاری علاقے کے کسی نانبائی کی دکان پر کھانا کھایا اور ایک برتن میں اپنی شاہی انگھوٹی اتار کر رکھ دی پھر اپنے علاقے میں واپس آگیا اور وہاں سے تاتاری فرمانروا کو خط لکھا۔

''میں تمہاری مملکت کے حالات کا معائنہ کرنے کیلئے فلاں جگہ گیا تھا نانبائی کی دکان پر انگھوٹی بھول آیا ہوں مہربانی فرما کر وہ انگھوٹی مجھے بھجوا دو کیونکہ وہ مجھے بہت پسند ہے۔‘‘ قاہرہ کے بازاروں میں لوگ یہ قصہ سن کر قہقہے لگاتے تھے۔ ایک دفعہ سلطان بیبرس عیسائی زائر کا بھیس بدل کر صلیبیوں کے مقبوضہ علاقوں میں داخل ہوا اور کئی ہفتوں تک انکے فوجی انتظامات کا جائزہ لیتا رہا کہا جاتا ہے کہ وہ تقریباً 20 ایسے قلعوں کو دیکھنے میں کامیاب ہوا جو عیسائیوں کی قوت کا مرکز تھے ایک دن اس نے قاصد کا بھیس بدلا اور ایک ہرن کا شکار لے کر سیدھا انطاکیہ کے حاکم بوہمنڈ کے دربار جا پہنچا جب بیبرس قلعے سے باہر گیا تو کسی نے آکر بوہمنڈ کا بتایا یہ ایلچی خود سلطان تھا یہ سن کر بوہمنڈ پر لرزاں طاری ہو گیا۔ بیبرس کی بیدار مغزی نے جہاں اسے اپنی عوام کی آنکھوں کا تارا بنا رکھا تھا وہاں دشمنوں کے دل پر ایسی ہیبت طاری کر دی تھی کہ سب اس کا نام سن کر تھراتے تھے۔

تاتاریوں کو انکی عروج میں روکنے والا یہی جنگجو تھا۔ معرکہ عین جالوت کا ہیرو بھی بیبرس کو ہی کہا جاتا ہے ۔ اس کے سامنے جب کوئی ہلاکو خان کے ظلم و جبر کی باتیں کرتا تو بیبرس قہقہہ لگا کر کہتا'' وقت آنے دو تاتاریوں کو ہم دکھا دیں گے کہ لڑنا صرف وہ نہیں جانتے۔‘‘ تاتاریوں کے عروج کے دور میں سلطان بیبرس کے دربار میں جب ہلاکو کے ایلچی آئے اور بدتمیزی سے بات کی تو بیبرس نے انکے سر قلم کر کے قاہرہ کے بازاروں میں لٹکا دئیے تاکہ لوگوں کو پتہ چل جائے کہ اب لڑنا ہو گا یا مرنا ہو گا ۔  تاریخ گواہ ہے کہ مصر کے اس بہادر نے تاتاریوں کو پہلے ہی معرکے میں ایسی شکست دی کہ اس کے بعد وہ آگے بڑھنے کی ہمت کھو بیٹھے۔ بیبرس نے یکم جولائی 1277ء کو وفات پائی اور اسے دمشق کے المکتبۃ الظاہریۃ میں دفن کیا گیا ۔

طیبہ بخاری

بشکریہ دنیا نیوز


Post a Comment

0 Comments