Great Warriors

6/recent/ticker-posts

بخت نصر ۔۔۔۔ بابل کا ظالم بادشاہ

بخت نصر ( 605 قبل مسیح سے 562 قبل مسیح تک ) اپنے زمانے کا سفاک ترین اور ظالم بادشاہ تھا، اکثر مورخین کہتے ہیں کہ اس کے دماغ میں ہر لمحہ '' فتح کر لو‘‘ کا بھوت سمائے رہتا تھا۔ جنگ جو تو تھا ہی ہر لمحہ کچھ کر گزرنے کا بھوت بھی اس کے سرپر سوار رہتا تھا۔ کہا جاتا ہے کہ وہ بلا کا ذہین اور اعتماد کی دولت سے مالا مال تھا۔ اسے بنو کد نصر کے نام سے بھی یاد کیا جاتا تھا۔ ملک بابل کا بادشاہ تھا ۔ یہاں یہ بتانا ضروری ہے کہ بابل موجودہ عراق کے قدیم نام ''میسو پو ٹیمیا ‘‘ کا ایک قدیم شہر تھا ۔''میسوپوٹیمیا‘‘ قدیم تہذیب کے حوالے سے جانا جاتا ہے۔ بابل کلدانی سلطنت کا دارلحکومت تھا جو موجودہ بغداد سے لگ بھگ 65 کلومیٹر کی مسافت پر دریائے فرات کے کنارے آباد تھا۔ 1750 قبل مسیح میں ''بابی لونیا ‘‘ کے بادشاہ حمو رابی نے اسے دارالسلطنت بنایا تو یہ دنیا کا خوبصورت ترین شہر بن گیا ۔ 4000 سال قبل مسیح کی تحریروں میں بھی اس شہر کا ذکر ملتا ہے۔ 689 قبل مسیح میں بادشاہ بنو کد نصر یا بخت نصر نے اسے دوبارہ تعمیر کرایا، پرانا شہر دریائے فرات کے کنارے چونکہ آباد تھا، بخت نصر نے دریا پر پل بنوایا ، اور مغربی کنارے کا ایک وسیع علاقہ بھی شہر کی حدود میں شامل کر لیا۔ اس کے عہد میں شہر کی آبادی 5 لاکھ نفوس پر مشتمل تھی۔

بخت نصر کا باپ ''نبو لاسر‘‘ بھی بابل کا بادشاہ تھا۔ باپ نے صلاحیتوں کو بھانپتے ہوئے اسے مصر پر حملے کے لئے بھیجا۔ اس نے زمانہ شہزادگی میں ہی مصر فتح کر ڈالا۔ اپنے باپ نبو لاسر کی وفات کے بعد یہ تخت نشیں ہوا۔ اس کے عہد سلطنت میں زیادہ تر دولت بابل کی قلعہ بندی اور تعمیرات پر خرچ ہوتی رہی، اس کا محل عجوبہ تھا۔ اس کے تعمیر کردہ ''معلق باغات‘‘ دنیا کے سات قدیم عجائبات میں دوسرے نمبر پر شمار ہوتے ہیں ۔ ایک روایت کے مطابق اس نے یہ باغات اپنی ملکہ شاہ بانو (ایرانی) کی خوشی کی خاطر تعمیر کروائے تھے کیونکہ وہ ہر وقت اپنے ملک کی سرسبز و شاداب وادیوں کو یاد کرتی رہتی تھی، 80 فٹ بلند یہ باغات معلق نہ تھے بلکہ ایسی جگہ لگائے گئے تھے جو درجہ بدرجہ بلند ہوتی ہوئی 350 فٹ تک پہنچ گئی تھی۔ ان باغات کے علاوہ بنو نصر کے زمانے میں بابل علم وادب اور تہذیب و تمدن کا بڑا مرکز بھی مانا جاتا تھا۔

یہ چھٹی صدی قبل مسیح کی بات ہے ، بنی اسرائیل کی سرکشی ، نافرمانیاں اور مشرکانہ حرکتیں حد سے تجاوز کر چکی تھیں ۔ ہر طرف ظلم و جبر ، فساد اور لوٹ مار کا بازار گرم تھا۔ تو قوم عمالقہ کا یہ ظالم بادشاہ بابل سے ایک بہت بڑی فوج کے ساتھ آندھی وطوفان کی مانند راستے میں آنے والی تمام حکومتوں کو پامال کرتا ہوا فلسطین پہنچ گیا ۔ تھوڑے ہی عرصے میں اس کی اینٹ سے اینٹ بجا دی۔ چالیس ہزار سے زائد علماء کو قتل کر دیا یہاں تک کہ وہاں ایک عالم بھی زندہ نہ بچا۔ بخت نصر بنی اسرائیل کے اسی ہزار افراد کو قیدی بنا کر بابل لے گیا۔ بخت نصر کی فوج نے بیت المقدس میں عظیم الشان محلات کو کھنڈرات میں بدل دیا۔ ہیکل سلیمانی میں موجود وسیع وعریض نادر نایاب کتب سے مزین کتب خانہ جلا کر راکھ کر دیا جن میں دوسرے مذاہب کے اصلی نسخے بھی شامل تھے۔ قدرت کسی قوم پر اپنا قہر اور عذاب ایک دم سے نازل نہیں فرماتی بلکہ انہیں پہلے سدھرنے کے پورے پورے مواقع فراہم کرتی ہے ، پھر اسے جھنجوڑتی ہے اور سبق سکھاتی ہے ۔ تفسیر فاران میں ہے کہ جب یہودیوں نے فساد شر انگیزی اور اللہ کے احکامات سے روگردانی کی تو اللہ عزو جل نے کسی ایسے شخص کو ان پر مسلط کر دیا جس نے ان کو ہلاکت اور بربادی سے دو چار کر دیا۔

پہلے جب انہوں نے فتنہ فساد کیا اور توریت کے احکامات کو رد کیا تو بخت نصر کو انکی طرف بھیجا جس نے انکو تہس نہس کر دیا۔ کچھ عرصہ بعد جب دوبارہ انہوں نے سر اٹھایا تو طیطوس رومی نے انکی اینٹ سے اینٹ بجا دی۔ پھر کچھ عرصہ بعد جب دوبارہ انہوں نے شرانگیزی شروع کی تو فارسی مجوسیوں نے ان کا حشر نشر کر دیا۔ اس طرح 515 قبل مسیح میں بیت المقدس دوبارہ آباد ہوا ۔ بنی اسرائیل نے حضرت عزیر السلام کی موجودگی میں رو رو کر توبہ کی اور آئندہ خدا کے احکام کے مطابق زندگی گزارنے کا عہد کیا۔ لیکن یہ زندگی بنی اسرائیل کو پھر راس نہ آئی ۔ فارغ البالی نصیب ہوئی تو ایک دوسرے سے اختلاف اور جھگڑے پھر معمول کا مشغلہ بن گئے۔ یہاں تک کہ رفتہ رفتہ بنی اسرائیل پھر اسی حالت کو پہنچ گئے جس میں ان پر بخت نصر کی شکل میں عذاب نازل ہوا تھا۔

خاور نیازی

بشکریہ دنیا نیوز

Post a Comment

0 Comments