دسویں صدی میں ملتان قرامطہ کا بہت بڑا مرکز تھا۔ غزنوی چونکہ ترک تھے اور اس زمانہ میں ترک عباسیوں کے محافظ تھے اس لئے انہوں نے ملتان پر حملہ کر کے قرامطہ کی قوت کو ختم کیا۔ معاشی بے چینی اور طبقاتی کش مکش نے عباسیوں کی وسیع سلطنت کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیا۔ مرکز کمزور ہوتے ہی سلطنت میں کئی ایک آزاد ریاستیں قائم ہو گئیں۔ ان میں سے غزنی بھی ایک ریاست تھی۔ اس ریاست کے حکمران سبکتگین کے مرنے بعد اس کے بیٹے محمود کے عہد میں شمال کی طرف سے ہندوستان پر پھر حملہ ہوا۔ پرانے حملہ آوروں کی طرح انہیں بھی کامیابی ہوئی۔
یہ حملہ آور بھی ہنوں‘ ساکوں اور یوچیوں کی طرح ہندوستان میں آباد ہو گئے۔ لیکن اب کے یہ حملہ آور اپنے ہمراہ ایسی خصوصیات اور ایسا تمدن لائے تھے کہ وہ ہندو مت میں جذب نہ ہو سکے۔ محمود کے حملوں سے تین سو سال پہلے عرب سندھ پر قبضہ کر چکے تھے۔ ہرشہ کی موت کے بعد ہندوستان بے شمار چھوٹی چھوٹی ریاستوں میں بٹ گیا۔ محمود کے سپاہیوں کے لئے ان ریاستوں کو شکست دینا کوئی مشکل کام نہیں تھا۔ محمود غزنوی کے ڈیڑھ سو سال بعد محمد غوری نے ہندوستان پر حملے کئے۔ ایبک نے دہلی پر قبضہ کر لیا۔ ان غلاموں نے چنگیزی حملوں سے ہندوستان کو بچایا۔
خلجیوں نے بندھیا چل کے اس پار فتوحات کا سلسلہ شروع کیا۔ تغلقوں نے رفاہ عامہ کی طرف توجہ کی۔ تیموری حملے نے تغلقوں کو ختم کر دیا۔ ہندوستان کی مرکزیت ختم ہو گئی۔ جا بجا آزاد ریاستیں قائم ہو گئیں۔ ان آزاد ریاستوں میں نیا ہندوستانی تمدن پھلا پھولا۔ لودھیوں کے عہد میں پرتگیزی ہندوستان میں آئے۔ اسی وقت ہندوستان کی مرکزی طاقت کمزور ہو رہی تھی۔ گجرات کے ایک بادشاہ نے پرتگیزوں سے ایک سمندری جنگ لڑی لیکن اس نے شکست کھائی۔ ابراہیم لودھی کو بابر نے شکست دے کر ہندوستان میں مغلیہ سلطنت قائم کی۔ اس خاندان کے حکمران ایسٹ انڈیا کمپنی کے آخری دنوں تک کسی نہ کسی صورت میں باقی رہے۔
واسکو ڈے گاما کے پرتگیزی ساتھیوں سے جنوبی ہندوستان کے راجہ نے نہایت رواداری کا سلوک کیا۔ پرتگیزوں کی آمد سے صدیوں پہلے جنوبی ہندوستان کے راجے عرب تاجروں کے ساتھ انتہائی درجہ رواداری کا سلوک کر چکے تھے۔ یہ اسی رواداری کا نتیجہ تھا کہ جنوبی ہندوستان میں عربوں کو تبلیغ اسلام کی اجازت تھی۔ اسی تبلیغ کی وجہ سے بے شمار ہندو اپنا مذہب چھوڑ کر مسلمان ہو چکے تھے۔ سندھ پر قبضہ کرنے سے پہلے عرب جنوبی ہندوستان کے کئی شہروں میں سے اسلام کو پھیلا چکے تھے۔ ہندو راجوں نے اس کی مزاحمت نہ کی تھی۔
سندھ کی فتح کے بعد ملتان اور منصورہ عربوں کے دو مرکز بن گئے۔ سندھ میں عربوں کی تبلیغ سے مسلمانوں کی تعداد آہستہ آہستہ بڑھنے لگی۔ محمد غوری نے لاہور کے آخری غزنوی حکمران سے حکومت چھیننے کے لئے جموں کے ہندو راجہ کو اپنے ساتھ ملایا۔ قطب الدین ایبک کی تخت نشینی سے اس خاندان کا آغاز ہوتا ہے جو ہندوستان کی تاریخ میں غلاموں کے نام سے مشہور ہے۔ اسی خاندان کے ایک حکمران بلبن نے ہندوستان کو منگولوں کے حملوں سے بچائے رکھا۔ اس خاندان کی دہلی میں دو یاد گاریں ہیں، قطب مینار اور مسجد قوت الا سلام ۔ منگولوں نے ایران اور عراق کو تباہ کر دیا تھا۔ ان ملکوں کے عالموں نے دہلی کا رخ کیا۔ ان کے آنے سے دہلی میں علم و حکمت کا چراغ روشن ہوا۔ امیرخسرو نے ہندی دوہے لکھ کر ایک نئی زبان کی بنیاد رکھی۔ خلجیوں نے سلطنت دہلی کو وسیع کیا۔ محمد تغلق کی اصلاحات اس کے زمانہ کے لئے ناموزوں تھیں۔
فیروز تغلق نے اپنی سلطنت میں ایسے شفا خانے کھولے جن میں مریضوں کو مفت دوا ملتی تھی۔ اس نے بہت سے نئے شہر آباد کئے۔ اس کے عہد میں سنسکرت کتابوں کے فارسی میں تراجم ہوئے۔ فقہ فیروز شاہی اسی عہد کی ایک مشہور کتاب ہے۔ ضیا الدین برنی نے’’ تاریخ فیروز شاہی‘‘ لکھی۔ فیروزشاہ نے اپنے زمانہ کے حالات کو ’فتوحات ِ فیروز شاہی‘ میں پیش کیا۔ تیمور کے حملے نے سلطنت دہلی کو تباہ و برباد کر دیا۔ اس حملے کے بعد ہندوستان میں بہت سی آزاد ریاستیں قائم ہو گئیں۔ ان ریاستوں میں علم وحکمت نے خوب ترقی کی۔ بنگال کے مسلمان حکمرانوں نے بنگالی کو اس وقت فروغ دیا ۔
0 Comments