Great Warriors

6/recent/ticker-posts

شیر میسور حیدرعلی کی انگریزوں کے خلاف مزاحمت

ایسٹ انڈیا کمپنی کی حکومت کو ختم کرنے کے لیے تنہا مرہٹوں نے ہی کوشش نہیں کی بلکہ حیدر علی بھی مرہٹو ں کا شریکِ کار تھا۔ انگریزوں کو سب سے خوف ناک جنگیں حیدر علی سے ہی کرنی پڑیں۔ حیدر علی انگریزوں کا سب سے بڑا دشمن تھا ۔ وہ اپنی موت تک انگریزوں سے لڑتا رہا۔ ذاتی فراست و شجاعت سے اس نے تاریخ ِ عالم میں اپنے لیے جگہ پیدا کر لی۔ وہ ہندوستان کا بہت بڑا جرنیل تھا۔ اس نے اپنی فوجی زندگی کا آغاز ایک سپاہی کی حیثیت سے کیا۔ وہ راجہ میسور کی فوج کا ایک سپاہی تھا۔ اپنی عسکری قابلیت سے بہت جلد ڈنڈی گل کا فوجدار ہو گیا۔

حیدر علی کے لیے فوج دار سے کمان دار بننا بہت آسان تھا۔ حیدر علی میسور کے راجہ کی وفات پر ریاست کا حکمران بن گیا۔ حیدر کی بڑھتی ہوئی قوت کو مرہٹے برداشت نہیں کر سکتے تھے۔ چنانچہ انہوں حیدرعلی کو شکست دی۔ اسے تاوانِ جنگ کے علاوہ اپنی مملکت کا بہت بڑا حصہ مرہٹوں کے حوالے کرنا پڑا۔ اس شکست کا احساس حیدرعلی کے دل میں آگ لگائے ہوئے تھا۔ یہی وجہ ہے کہ جب ۱۷۷۱ء میں مرہٹوں نے حیدر علی کو انگریزوں کے خلاف صف آراء کرنا چاہا تو اس نے انکار کر دیا۔ انگریزوں نے حیدر علی کی مملکت کے اس علاقہ پر حملہ کر دیا جو ان کے نزدیک کرناٹک کا ایک حصہ تھا۔ ان جنگوں میں، جو اس علاقہ کے حصولِ تحفظ کے لیے لڑی گئیں، کبھی انگریز کامیاب ہو جاتے اور کبھی حیدر علی۔

انگریزوں نے نظام اور ارکاٹ کو حیدر سے جدا کر دیا۔ رفقائے کار کی بے وفائی مرہٹوں کی خشمگیں نگاہیں اورانتظامِ سلطنت کے خیال نے حیدر علی کو صلح پر آمادہ کر دیا۔ حیدر شکست خوردہ دشمن نہ تھا۔ اس کی درخواست ِ صلح پر غور نہ کرنا سپاہیانہ بزدلی تھی۔ انگریزوں نے حیدر علی کو آمادہ آشتی پا کر یہ خیال کیا کہ حیدر علی کا زور ٹوٹ چکا ہے۔ اس غلط فہمی نے انگریزوں کو حیدرعلی سے جنگ جاری رکھنے پر اکسایا۔ دکن کے آ ہنی دیو نے انگڑائی لی۔ اس نے انگریزوں سے تمام مفتوحہ علاقہ واپس لے لیا۔ انگریز حیدر علی کے خوف سے کانپ رہا تھا۔ حکومتِ مدراس نے ایک فوجی افسر کو اس کے پاس صلح کے لیے بھیجا۔حیدر علی نے قاصد سے کہا کہ وہ مدراس کے دروازوں تک بڑھ رہا ہے۔ گورنر اور کونسل کی پیش کردہ شرائطِ صلح پر مدراس میں ہی غور کرے گا۔ تین دن میں ایک سو تیس میل کا سفر کرنے کے بعد وہ مدراس سے پانچ میل کے فاصلہ پر سینٹ تھامس کے مقام پر ظاہر ہوا۔

حیدر علی کے لیے مدراس پر قبضہ کر نا بہت آسان تھا۔ اس نے انگریزوں سے شرائطِ صلح لکھوا کر میسوری پہلی جنگ کا خاتمہ کر دیا۔ اس عہد نامہ کی رو سے فریقین نے حفاظتی جنگ میں ایک دوسرے کی مدد کرنے کا وعدہ کیا۔انگریزوں نے اس عہد نامہ کی خلاف ورزی کر کے میسور کی دوسری جنگ کے اسباب پیدا کر دیئے۔ مرہٹوں نے میسور پر حملہ کیا ۔ حیدر علی نے عہد نامہ کی رو سے انگریزوں سے مدد طلب کی مگر انہوں نے مدد دینے سے انکار کر دیا۔ اب حیدرعلی انگریزوں کا مخالف ہو گیا۔ مرہٹوں سے صلح کرنے کے بعد اس نے ۰۸۷۱ء میں انگریزوں کوعہد شکنی کا مزہ چکھانا چاہا۔ اس جنگ میں حیدر علی نے اپنے آپ کو ہندوستان کا سب سے بڑا جرنیل ثابت کر دیا۔ اس نے کرناٹک کو فتح کیا۔ اس کے شہسوار مدراس میں سواد تک پہنچ گئے۔ جس پر حکومتِ     مدراس نے جنگ کی تیاریاں شروع کیں۔ ہیکٹر منرو نے حیدر کا مقابلہ کیا۔ وہ چاہتا تھا کہ کرنل بیلی کی فوج اسے شکست دے لیکن حیدر علی نے کرنل بیلی کی فوج کو منرو تک پہنچے سے قبل ہی موت کے گھاٹ اتار دیا۔

حیدر علی نے منرو کو بھی شکست دیدی۔ انہیں ایام میں ہیسٹنگز نے نظام، سندھیا اور را جہ برار کو حیدر علی سے الگ کر دیا۔ اب حیدر علی کوتنہا لڑنا پڑا۔ ہیسٹنگز نے بنگال سے ایک کثیر فوج بھیجی ۔ اس فوج کا کماندار سر آئرکوٹ تھا۔وہ حکومتِ مدراس کی بد عنوانیوں سے تنگ آ کر بنگال چلا گیا۔ حیدر علی کی قوت میں کسی قسم کی کمی واقع نہیں ہوئی تھی۔ وہ آخری ایام تک انگریزوں سے جنگ کر نے پر آمادہ تھا۔ اس کی موت نے دکن کی سیاست میں بدل دی۔ حیدر علی کی موت نے نانا فرنویس کو مجبور کر دیا کہ وہ عہد نامہ سلبئی میں ترمیم کرے۔حیدر علی کی وفات کے بعد اس کے بیٹے ٹیپو سلطان نے جنگ جاری رکھی۔

باری علیگ


 

Post a Comment

0 Comments