Great Warriors

6/recent/ticker-posts

سلطان شہاب الدین غوری کی آخری قیام گاہ

جی ٹی روڈ سے کوٹ دھیمک کا فاصلہ پندرہ کلو میٹر ہے۔ سلطان شہاب الدین
غوری کے مزار تک جانیوالی سڑک کی چوڑائی صرف آٹھ فٹ ہے۔ سلطان شہاب الدین غوری، 15 مارچ 1206ء کو لاہور راولپنڈی کی جرنیلی سڑک کی ایک نواحی بستی کوٹ دھیمک میں آئے اور نماز عشاء کی ادائیگی کے دوران انہیں شہید کر دیا گیا۔ سلطان کے مقبرے کی تعمیر 11 ستمبر 1994ء کو شروع ہوئی اور 11 ستمبر 1996ء کو اس کی تعمیر مکمل ہوئی اور دو سال کے ریکارڈ عرصے میں اسے مکمل کیا گیا۔ مقبرے کا ڈیزائن گیاہویں صدی عیسوی کے وسط ایشیائی مسلم طرز تعمیر کو سامنے رکھتے ہوئے امیر تیمور اور الغ بیگ کے مزارات کی طرز پر بنایا گیا ہے مقبرے کی بلندی پچاس فٹ ہے اور اس کے چاروں کونوں پر مینار اور برجیاں تعمیر کی گئیں ہیں۔
جنرل ضیاء الحق کے دور حکومت میں شاہ ایران نے سلطان شہاب الدین کا مقبرہ بنانے میں دلچسپی ظاہر کی تھی۔ لیکن کسی نے کان نہیں دھرا۔ جولائی 1995ء میں پاکستان کے معروف سائنس دان ڈاکٹر عبدالقدیر خان اپنی گارڈ کے ہمراہ یہاں تشریف لائے۔ قبر کی خستہ حالی دیکھ کر انہوں نے سلطان کے شایان شان مقبرہ تعمیر کرنے کا فیصلہ کیا۔ انہوں نے مقبرے کا ڈیزائن تیار کروایا۔ یہ ڈیزائن اسی فرم کا تیار کردہ ہے جس نے داتا دربار کمپلیکس کا ڈیزائن تیار کیا ہے۔ ڈاکٹر اے کیو خان نے آٹھ کنال اراضی خرید کر چار دیواری کروا دی۔ بالآخر برصغیر پاک و ہند کے اس بطل جلیل اور عظیم فاتح کا مقبرہ ڈاکٹر قدیر خان اور میجر جنرل شیر علی کی ذاتی دلچسپی اور مشترکہ کاوشوں کی بدولت بن کر عمل میں آیا۔

شیخ نوید اسلم

Post a Comment

0 Comments