Great Warriors

6/recent/ticker-posts

سلطان محمد غوری, ہند کے مفتوحہ علاقوں کا خودمختار حاکم

غزنی میں ترک خاندان کے بادشاہوں کو سلطنت کرتے ہوئے کوئی ڈیڑھ سو سال ہوئے تھے کہ غور کے افغانوں نے ان کو زیر کیا۔ غور افغانستان کے شمال مغرب میں ایک چھوٹا سا ملک تھا۔ اس وقت محمد شہاب الدین، جو تاریخ میں محمد غوری کے نام سے مشہور ہے، یہاں کا بادشاہ تھا۔ محمود غزنوی کی طرح یہ بھی بڑا دلاور اور جنگجو تھا۔ اس نے بھی عمر بھر شمالی ہند پر حملے کیے۔ صرف اتنا فرق ہے کہ اس کا منشا فقط خراج وصول کرنا اور ملک کی دولت لے جانا نہ تھا بلکہ یہ اس ملک کو فتح کر کے اس میں اپنی مستقل سلطنت قائم کرنا چاہتا تھا۔اس وقت شمالی ہند میں راجپوتوں کی چار بڑی سلطنتیں تھیں۔ تنوار راجپوتوں کی بڑی راج دھانی دہلی تھی۔ چوہانوں کی اجمیر، راٹھوروں کی قنوج اور بگھیلوں کی گجرات۔
دہلی کے تنوار راجہ کا کوئی بیٹا نہ تھا۔ اس نے اپنے نواسے پرتھوی راج کو جو شکیل، بہادر، جوان اور چوہانوں کا سرتاج تھا، گود لیا۔ چنانچہ جب دہلی کا راجہ مرا تو پرتھوی راج دہلی اور اجمیر دونوں گدیوں کا مالک ہوا۔ راٹھوروں کا راجہ جے چند بھی دہلی کے تنوار راجہ کا نواسا تھا۔ پرتھوی راج کے گود لیے جانے میں اس نے اپنی بڑی حق تلفی سمجھی اور پرتھوی راج سے سخت حسد کرنے لگا۔ شہاب الدین نے 1191ء میں ہند پر حملہ کیا اور سیدھا دہلی کی طرف ہو لیا۔ پرتھوی راج جو دہلی اور اجمیر کا راجہ تھا، مع اور بہت سے راجپوت راجائوں کے دہلی سے اسی میل تھا نیسر کے مقام پر ایک بڑا بھاری لشکر لے کر شہاب الدین کے سامنے ہوا۔ راجپوتوں نے افغانوں کو شکست فاش دی۔ 

جے چندر پرتھوی راج سے لڑا مگر کوئی سرخروئی حاصل نہ کی۔ اس وقت غصے میں بھر کر اس نے شہاب الدین کو پیغام دیا کہ آپ ایک بار دہلی پر پھر حملہ کریں اور میں آپ کی مدد کروں گا۔ وہ پہلے ہی سے بڑا بھاری لشکر جمع کیے بیٹھا تھا۔ جے چند کا پیغام پا کر 1193ء میں پھر دہلی کی طرف روانہ ہوا۔ ڈیڑھ لاکھ سپاہی عمدہ افغانی گھوڑوں پر سوار اس کے ہمراہ تھے۔ اس دفعہ جے چند اور اور راٹھور راجا پرتھوی راج کی مدد کو نہ آئے۔ پرتھوی راج چوہانوں کو لے کر تھانیسر کے میدان پر دوبارہ شہاب الدین سے دو چار ہوا۔ چوہان اپنے راجہ اور اپنے ملک کے نام پر خوب جان توڑ کر لڑے۔ مگر افغان جو تند اور جانباز سپاہی تھے ان پر غالب آئے۔ راجپوت تتر بتر ہو کر بھاگے اور پرتھوی راج مارا گیا۔ محمد غوری نے پہلے دہلی لی، پھر اجمیر، بعد میں وہ بہت سا لوٹ کا مال ہمراہ لے کر غزنی چلا گیا اور اپنے نائب قطب الدین کو ہند میں ان صوبوں کی حکومت اور انتظام کے لیے چھوڑ گیا جو اس نے فتح کیے تھے۔

1194ء میں شہاب الدین پھر ہند میں آیا اور اس دفعہ جے چند والیٔ قنوج پر حملہ کیا۔ پرتھوی راج کی طرح یہ مارا گیا۔ غوریوں نے قنوج اور بنارس دونوں لے لیے اور شہروں کا تو کیا ذکر ہے۔ ایک بنارس ہی میں انہوں نے ہزار سے زیادہ بت توڑے اور لوٹ کے اسباب سے چارہزار اونٹ لادے۔ راٹھور اور شمالی ہند کی کئی اور راجپوت قومیں اس وقت گنگا جمنا کے اس علاقے سے جہاں ان کے آبا و اجداد ہزاروں برس پہلے آباد تھے۔ اٹھ کھڑی ہوئیں اور اپنے کنبوں، مال و اسباب، جانور اور مویشی کو لے کر جنوب کی طرف مار واڑ اور ارولی پہاڑ کے اس علاقے میں چلی گئیں، جو ان کی وجہ سے راجپوتانہ کہلاتا ہے۔ محمد غوری نے قریب قریب سارا شمالی ہندوستان زیر کر لیا۔ ان میں سے ایک نے جس کا نام بختیار خلجی تھا، 1199ء میں اودھ اور بہار کو اور 1203ء میں بنگال کو فتح کیا۔

اس زمانے میں بنگال کا پایۂ تخت ایک شہر تھا، جس کا نام لکھنوتی تھا۔ افغانوں نے بدل کر اپنے غور کے نام پر اس کا نام گور رکھ دیا جو بگڑ کر بعد میں گوڑ بنگال کہلانے لگا۔ اس کے بعد غوریوں نے اول گجرات کے بگھیلے راجپوت زیر کیے اور پھر گوالیار بھی لے لیا، مگر مالوہ فتح نہ ہوا۔ ہند کی آخری مہم کے بعد محمد غوری پنجاب کی راہ اپنے وطن کو واپس جا رہا تھا کہ ایک پہاڑی قوم کے لوگوں نے جسے گگھڑ کہتے ہیں۔ رات کے وقت اسے خیمے میں سوتے ہوئے کو قتل کیا۔ اس کے ہمراہی لاش کو غزنی لے گئے اور وہاں دفن کیا۔ اس کی وفات پر اس کا نائب قطب الدین ہند کے مفتوحہ علاقوں کا خودمختار حاکم اور مالک ہو کر دہلی کا سلطان بن گیا۔محمد غوری ہند پر حکومت کرنے آیا تھا اور اپنے منصوبے میں کامیاب ہوا.

ای - مارسڈن

 

Post a Comment

0 Comments