Great Warriors

6/recent/ticker-posts

میسور میں ٹیپو سلطان کی مزاحمت

بارہویں صدی ہجری کے اواخر میں میسور کی سلطنت کا قیام اس بات کا ثبوت ہے کہ برصغیر کے مسلمان اپنے عہد زوال میں بھی متحرک تھے۔ حیدرعلی نے کئی ’’وڈیارویوں‘‘ اور چھوٹی بڑی جاگیروں کو ایک ریاست کی شکل دی۔ 1767ء میں میسور میں حیدر علی کی ابھرتی ہوئی طاقت سے خائف ہو کر مادھو راؤ نے اس پر حملہ کیا اور شکست دی۔ مادھوراؤ کی طاقت اور شخصیت کے پیش نظر بمبئی کونسل نے موٹین (Mostyn) کو پونا بھیجا تاکہ وہ صورت حال کا جائزہ لے اور کسی معاہدہ میں شامل ہوئے بغیر اسے میسور یا حیدر آباد کے حکمرانوں سے اتحاد قائم کرنے سے روکے۔ اگلے سال بھی معرکہ ہوا۔ 1767ء میں میسور کی پہلی جنگ میں مرہٹے اور انگریز حلیف تھے۔ 

حیدرعلی نے ’’اتحادیوں‘‘ کو یادگار شکست دی۔ وہ شبانہ روز میں ایک سو تیس میل سے زیادہ کا فاصلہ طے کر کے مدراس پہنچا اور انگریزوں کو (ان کے مرکز) مدراس کے دروازے پر اپنے سامنے جھکا کر اپنی شرائط پر صلح کی۔ عہد نامہ مدراس مارچ 1769ء میں مرتب کیا گیا تھا۔ دس سال بعد میسور کی دوسری جنگ ہوئی، جس کے محرکات میں یورپ میں برطانیہ و فرانس کی جنگ بھی شامل تھی۔ اسی طویل جنگ کے دوران دسمبر 1782ء میں حیدر علی کا انتقال ہو گیا اور سلطان ٹیپو اس کا جانشین ہوا۔ اس وقت سلطنت میسور کا رقبہ کم و بیش ایک لاکھ مربع میل تھا اور فوج نوے ہزار سپاہیوں پر مشتمل تھی۔ 

مگر ٹیپو کو مسلسل مرہٹوں اور ’’نظام‘‘ سے لڑنا پڑا۔ یہ دونوں دیسی طاقتیں وسیع اور قومی نقطہ نظر سے مستقبل کو دیکھنے کی صلاحیت نہیں رکھتی تھیں۔ 1786ء میں مرہٹوں اور نظام نے ٹیپو کے خلاف اتحاد کر لیا۔ اس جنگ کا خاتمہ ایک عارضی صلح پر ہوا۔ 1787ء میں ٹیپو نے کمپنی کے منصوبہ کو اچھی طرح جان لیا اور انگریزوں کے عزائم کو بھانپ لیا۔ دوسری طرف نظام اور مرہٹے، ٹیپو کو انگریزوں سے زیادہ خطرناک سمجھتے تھے۔ برطانوی جنرل کارنوالس کی نظر عالمی نقشۂ سیاست اور یورپ و امریکا میں برطانوی مفادات پر تھی۔ وہ ٹیپو کو سب سے بڑا خطرہ سمجھتا تھا۔ 13 مئی 1791ء کو برطانوی فوجیں لارڈ کارنوالس کی قیادت میں سرنگا پٹم سے نو میل دور تھیں، لیکن ٹیپو نے غیرمعمولی فوجی قیادت کا مظاہرہ کیا اور برسات کے شروع ہونے پر کارنوالس اپنی فوجوں کے سازو سامان کی مکمل ناکامی کی وجہ سے پسپائی پر مجبور ہو گیا۔

اس جنگ کے بعد 1792ء کا معاہدہ عمل میں آیا۔ انگریزوں نے معاہدے کی خلاف ورزی کی اور ٹیپو کو کئی ضلعے انگریزوں، مرہٹوں اور نظام کر دینے پڑے۔ اس کے علاوہ دو بیٹے یرغمالی کے طور پر دشمن کے حوالے کرنے پڑے۔ ٹیپو نے ہمت نہ ہاری۔ فرانسیسیوں سے رشتہ جوڑا۔ نپولین اور سلطان ترکی سے ذاتی رابطہ قائم کیا، لیکن اس کے دربار میں وطن دشمنوں کا ایک پورا حلقہ تھا جو انگریزوں کو سلطان کی تدابیر سے باخبر کرتا رہتا تھا۔ میر صادق، غلام علی، بدرالزماں اور قاسم علی وغیرہ اس گروہ کے سربراہ تھے۔ انگریز، ٹیپو کو سب سے بڑا خطرہ سمجھتے ہوئے اسے اپنے راستے سے ہٹا دینا چاہتے تھے، اسی لیے میسور کی چوتھی جنگ ٹیپو پر تھوپی گئی۔ 

کیمبرج ہسٹری آف انڈیا کے مؤرخ ہٹن کو بھی اعتراف ہے کہ اس جنگ پر انگلستان میں ٹیپو پر غیر منصفانہ تنقید کی گئی، مگر اس نے اس عہد کے انگریز مؤرخوں کی رائے کا سہارا لیا ہے جن کے نزدیک یہ جنگ ناگزیر تھی ۔ ولزلی کے عہد میں انگریزی لشکر تین اطراف سے فروری 1799ء میں سرنگا پٹم کی طرف بڑھا۔ ٹیپو سلطان نے ایک بار پھر بے مثل عسکری قیادت کا مظاہرہ کیا۔ لیکن غداروں نے جنگ کا نقشہ پلٹ دیا۔ قاسم علی نے انگریزوں کو سرنگا پٹم کے قلعہ کا راستہ دکھایا اور سلطان ٹیپو چار مئی 1799ء کو شجاعت سے لڑتا ہوا شہید ہوا۔ اس جنگ سے انگلستان کے باضمیر افراد اپنی حکومت کی جارحیت اور ظلم کے خلاف چِلا اٹھے اور انہوں نے ٹیپو کو اپنے وطن کا شہید قرار دیا۔ 

سراج الدولہ کی شکست کے بعد سلطان ٹیپو کی شہادت نے برصغیر کے مستقبل پر غلامی کی سیاہی پھیر دی۔ مرہٹے ایک عسکری طاقت ہونے کے باوجود کبھی بااصول نہیں رہے۔ انہوں نے برصغیر کی آزادی کے بارے میں کبھی نہیں سوچا۔ وہ مرہٹہ راج کا خواب دیکھتے رہے۔ پانی پت کی تیسری جنگ کے بعد عرصہ تک انہوں نے خراج اور لوٹ مار کو اپنے لیے کافی سمجھا۔ شمالی ہند میں روہیلے ایک ایسی ابھرتی ہوئی طاقت تھے جن میں بحیثیت جماعت اس عہد کے عام عیوب نہیں تھے اور جنہیں اس دور کے مسلمان مصلحین نے احیائے سلطنت و حکومت کے لیے منتخب کیا۔ لیکن انگریزوں نے روہیلوں اور سلطنت اودھ کو ایک دوسرے سے لڑوایا۔ یہ کشمکش صفدر جنگ کے دور ہی سے شروع ہو گئی تھی۔ محمد خان بنگش کے بعد احمد خان بنگش نے صفدر جنگ اور جاٹوں کو پے در پے شکستیں دی تھیں۔ روہیلوں کی تاریخ میں نشیب و فراز دونوں موجود ہیں لیکن روہیلے تاریخ کے رخ کو نہیں موڑ سکتے تھے۔ ایسی آخری شخصیت سلطان ٹیپو کی تھی۔

محمد ابوالخیر کشفی




 

Post a Comment

0 Comments