Great Warriors

6/recent/ticker-posts

طارق بن زياد : اسپین کی فتح

طارق بن زیاد بربر نسل سے تعلق رکھنے والے مسلم سپہ سالار اور بَنو امیّہ کے جرنیل تھے۔ بعض روایات کے مطابق وہ عرب یا فارسی تھے۔ انہوں نے 711ء میں ہسپانیہ (اسپین) میں غیرمسلم حکومت کا خاتمہ کر کے یورپ میں مسلم اقتدار کا آغاز کیا۔ انہیں اسپین کی تاریخ کے اہم ترین عسکری رہنماؤں میں سے ایک سمجھا جاتا ہے۔ شروع میں وہ اُموی صوبے کے گورنر موسیٰ بن نصیر کے نائب تھے، جنہوں نے ہسپانیہ میں بادشاہ کے مظالم سے تنگ عوام کے مطالبے پر طارق کو ہسپانیہ پر چڑھائی کا حکم دیا۔ طارق بن زیاد نے مختصر فوج کے ساتھ یورپ کے عظیم علاقے اسپین کو فتح کیا۔

 اسپین کی فتح اور یہاں پر مسلمانوں کی حکومت کا قیام ایک ایسا تاریخی واقعہ ہے، جس نے یورپ کو سیاسی، معاشی اور ثقافتی پسماندگی سے نکال کر ایک نئی بصیرت عطا کی اور اس پر ناقابل فراموش اثرات مرتب کیے تھے۔ طارق بن زیاد نے فن سپہ گری میں جلد ہی شہرت حاصل کر لی۔ ہر طرف ان کی بہادری اور عسکری چالوں کے چرچے ہونے لگے۔ طار ق بن زیاد بن عبداللہ نہ صرف دنیا کے بہترین سپہ سالاروں میں سے ایک تھے بلکہ وہ متّقی، فرض شناس اور بلند ہمت انسان بھی تھے۔ ان کے حسنِ اخلاق کی وجہ سے عوام اور سپاہی انہیں احترام کی نظر سے دیکھتے تھے۔ افریقہ کی مسلم سلطنت کو اندلس کی بحری قوّت سے خطرہ لاحق تھا، جب کہ اندلس کے عوام بھی حکومتی رویے سے تنگ تھے۔

اسی لیے گورنر موسیٰ بن نصیر نے دشمن کی طاقت اور دفاعی استحکام کا جائزہ لے کر طارق بن زیاد کی کمان میں سات ہزار (بعض مؤرخین کے نزدیک بارہ ہزار) فوج دے کر انہیں ہسپانیہ کی فتح کے لیے روانہ کیا۔ 711ء کو اسلامی لشکر ہسپانیہ کے ساحل پر اترا اور ایک پہاڑ کے نزدیک اپنے قدم جما لیے، جو بعد میں طارق بن زیاد کے نام سے جبل الطارق کہلایا۔ طارق بن زیاد نے جنگ کے لیے محفوظ جگہ منتخب کی۔ اس موقع پر اپنی فوج سے نہایت ولولہ انگیز خطاب کیا اورکہا کہ ہمارے سامنے دشمن اور پیچھے سمندر ہے۔

جنگ سے قبل انہوں نے اپنے تمام بحری جہازوں کو جلا دینے کا حکم دیا تاکہ دشمن کی کثیر تعداد کے باعث مسلمانوں کا لشکر بد دِل ہو کر اگر پسپائی کا خیال لائے تو واپسی کا راستہ نہ ہو۔ اسی صورت میں اسلامی فوج کے پاس صرف ایک ہی راستہ باقی تھا کہ یا تو دشمن کو شکست دے یا اپنی جان جانِ آفرین کے سپرد کر دے۔ یہ ایک ایسی زبردست جنگی چال تھی کہ جس نے اپنی اہمیت کی داد آنے والے عظیم سپہ سالاروں سے بھی پائی۔ سات ہزار کے مختصر لشکر نے پیش قدمی کی اور ہسپانیہ کے حاکم کے کئی گنا بڑے لشکر کا سامنا کیا۔ گھمسان کا رَن پڑا۔ آخر کار دشمن فوج کو شکست ہوئی اورشہنشاہ راڈرک مارا گیا۔ بعض روایتوں کے مطابق وہ بھاگ نکلا تھا، جس کے انجام کا پتا نہ چل سکا۔

اس اعتبار سے یہ جنگ فیصلہ کن تھی کہ اس کے بعد ہسپانیوی فوج کبھی متحد ہو کر نہ لڑ سکی۔ فتح کے بعد طارق بن زیاد نے بغیر کسی مزاحمت کے دارالحکومت طلیطلہ پر قبضہ کر لیا۔ طارق بن زیاد کو ہسپانیہ کا گورنر بنا دیا گیا۔ طارق بن زیاد کی کام یابی کی خبر سن کر موسیٰ بن نصیر نے حکومت اپنے بیٹے عبداللہ کے سپرد کی اورخود طارق بن زیاد سے آملے۔ دونوں نے مل کر مزید کئی علاقے فتح کیے۔ اسی دوران خلیفہ ولید بن عبدالملک نے اپنے قاصد بھیج کر دونوں کو دمشق بلوالیا اور یوں طارق بن زیادہ کی عسکری زندگی کا اختتام ہوا جب کہ اسلامی دنیا کے اس عظیم فاتح نے 720ء وفات پائی۔ 

 ولید احمد

Post a Comment

0 Comments