Great Warriors

6/recent/ticker-posts

عثمانیوں کی حیرت انگیز فتوحات کی وجہ

سولہویں صدی میں عثمانیوں کی حیرت انگیز فتوحات کو ان کی رعایا نے بنیادی اسلامی اصولوں پر عمل کرنے کا نتیجہ تصور کیا۔ ان کا معاشرہ اسی وجہ سے تو تحیرانگیز انداز میں کامیاب رہا تھا۔ عثمانی نظام حکومت میں شریعت کو دی گئی بے نظیر اہمیت کو قدامت پسند روح کے تناظر میں بھی دیکھا گیا۔ اوائلی جدید عہد میں مسلمانوں نے الوہی قانون کی پابندی کو اپنی آزادی پر قدغن محسوس نہیں کیا کیونکہ ان کا عقیدہ تھا کہ اس طرح وہ رضائے الہیٰ حاصل کر سکتے ہیں۔ رسول کریمﷺ کے وصال فرمانے کے ایک صدی بعد ہی مسلمان دور دور تک پھیلی ہوئی ایک وسیع سلطنت پر حکومت کر رہے تھے، جسے ہر معاشرے کی طرح، ایک پیچیدہ قانونی نظام کی ضرورت تھی۔ 

بالآخر اسلامی قانون کے چار مکاتب فکر وجود پذیر ہوئے، سب کے سب یکسانیت رکھتے تھے اور مساوی طور پر قابل اطلاق تھے۔ قانون کی اساس قرآن اور اسوہ حسنہ رسولﷺ تھا۔ قانونی مکاتب فکر نے اسوہ رسولﷺ ہی کو پیش کیا تھا، تاکہ ساری دنیا کے مسلمان اپنے رسولﷺ کے نقش قدم پر چلتے ہوئے زندگی کا ہر عمل انجام دیں۔ انہیں امید تھی کہ اسوہ رسول ﷺ پر عمل کر کے اللہ کی اطاعت ممکن ہے۔ مسلمان حقیقی روایت پسند انداز میں ماضی کی ایک اکملیت کی توثیق کر رہے تھے۔ رسول کریمﷺ کی زندگی اور شخصیت مسلمانوں کے لیے ایک مثال تھی۔ آپؐ کی سنت پر عمل کرنے سے معاشرہ حقیقی معنوں میں اسلامی ہو گیا۔

تیرہویں صدی میں تارتاری یورش کے وقت شریعت پوری اسلامی دنیا میں راسخ ہو چکی تھی۔ اس کی وجہ یہ نہیں تھی کہ خلفا اور علما نے لوگوں پر جبر کیا تھا بلکہ اس کی وجہ یہ تھی کہ اس نے ان کی زندگیوں کو معنویت عطا کی تھی۔ تاہم ایسا بھی نہیں تھا کہ مسلمان ساتویں صدی کے طرز زندگی کے زندانی بنے ہوئے ہوں۔ اس کی بجائے عثمانی ریاست سولہویں صدی کے اوائل میں دنیا کی سب سے زیادہ جدید ریاست تھی۔ عثمانیوں نے اپنے زمانے کے اعتبار سے ایک نئے طرز کی انتہائی فعال بیوروکریسی تشکیل دی تھی اور ولولہ انگیز دانش ورانہ زندگی کی حوصلہ افزائی کی تھی۔ عثمانیوں نے دوسرے کلچروں کو خوش آمدید کہا۔ وہ مغرب کی بحری سائنس اور دریافت کنندگان کی دریافتوں سے حقیقتاً بہت خوش تھے۔ نیز بارود اور آتشیں ہتھیاروں جیسی مغربی فوجی ایجادات کو حاصل کرنے کے مشتاق تھے۔ 

یہ طے کرنا علما کی ذمہ داری تھی کہ ان ایجادات و اختراعات کو مسلمان قانون سے کس طرح ہم آہنگ کیا جا سکتا ہے۔ فقہ کا مطالعہ محض قدیم متون پر غور و فکر تک ہی محدود نہیں تھا بلکہ یہ ایک مبارزت طلب جہت کا بھی حامل تھا اور اس زمانے میں اسلام اور مغرب کے مابین کوئی حقیقی تضاد موجود نہیں تھا۔ یورپ خود قدامت پسند روح کے زیراثر تھا۔ نشاہ ثانیہ کے انسان دوست اپنے کلچر کے سرچشموں کی طرف واپسی اختیار کر کے اسے تازہ کرنے کی کوشش کر چکے تھے۔ ہم دیکھ آئے ہیں کہ عام فانی انسانوں کے لیے مذہب کو مکمل طور پر رد کر دینا واقعتاً ناممکن ہوتا ہے۔ یورپی لوگ اپنی ایجادات کے باوجود اٹھارہویں صدی تک قدامت پسند نظام کے تحت رہے۔ مسلمانوں نے یورپ کو اس وقت اجنبی سمجھنا شروع کیا جب مغربی جدیدیت نے مستقبل اساس عقلیت پسندی (future rationalism oriented) کو ماضی کی طرف دیکھنے والے اساطیری طرز زندگی کی جگہ رائج کیا۔

فاروق احمد


 

Post a Comment

0 Comments