Great Warriors

6/recent/ticker-posts

جنگ آزادی کا اہم کردار جھانسی کی رانی

یہ ایک تلخ حقیقت ہے جس سے انحراف ناممکن ہے کہ برصغیر یعنی ہندوستان، بنگلہ دیش و پاکستان کے لوگ تعصب کا اس قدر شکار ہو چکے ہیں کہ ہم آزادی کی لڑائی لڑنے والوں کو بھی تب جنگ آزادی کا ہیرو تسلیم کرتے جب یہ یقین کر لیں کہ وہ حریت رہنما ہمارا ہم مذہب تھا۔ عصر حاضر میں ہندوستان میں اس کی ایک مثال ٹیپو سلطان بھی ہے جو وہاں کی مذہبی انتہا پسندی کا شکار ہو رہا ہے۔ صداقت یہی ہے کہ ٹیپو سلطان کا شمار ان اولین آزادی کی جنگ لڑنے والوں میں ہوتا ہے جنھوں نے جنگ آزادی میں لڑتے ہوئے اپنی زندگی تک قربان کر دی۔
دوسری جانب ہمارا اپنا رویہ بھی آزادی کی لڑائی لڑنے والے جو کہ ہمارے ہم مذہب نہیں تھے کوئی مثالی حیثیت نہیں رکھتا۔ مثال اس کی بھگت سنگھ ہے جس کا تعلق گو کہ موجودہ پاکستانی خطے سے تھا چونکہ وہ سکھ مذہب کا پیروکار تھا۔ اسی باعث وہ اپنا حقیقی مقام نہ پا سکا۔ بہرکیف ان تمام تر حقائق کے باوجود ہماری گفتگو کا محور ہے، جھانسی کی رانی جس نے 19 نومبر 1828ء کو ہندوستان کی ریاست بٹھور میں جنم لیا اس کا والد مورو پنت و والدہ بھاگیرتی کا تعلق ہندو براہمن گھرانے سے تھا۔

انھی حالات میں 1857ء کی جنگ آزادی کا زمانہ آتا ہے، یہ وہ دور تھا جب ہندوستانی فوجیوں نے، جن میں ہندو مسلم دونوں شامل تھے، انگریز سرکار کی جانب سے دیے گئے بندوق کے کارتوس چلانے سے انکار کر دیا سبب اس کا یہ تھا کہ کارتوس میں گائے و خنزیر کی چربی استعمال ہوتی تھی اور کارتوس کی پن منہ سے کھولنا پڑتی تھی۔ جب کہ مسلمان خنزیرکو ناپاک جب کہ ہندو گائے کو مقدس تصور کرتے ہیں۔ بہرکیف جنگ آزادی کی تحریک کا آغاز مئی 1857ء میں میرٹھ چھاؤنی سے ہوا۔ دیکھتے ہی دیکھتے یہ تحریک ہندوستان بھر میں پھیل گئی۔ انگریز سامراج نے بمشکل اس تحریک پر قابو پایا۔ اس موقعے پر ہوا یہ کہ باوجود 1817ء کے معاہدے کے مطابق جوکہ جھانسی کے راجہ و ایسٹ انڈیا کمپنی کے مابین ہوا تھا کہ ریاست جھانسی کے حکومتی امور راجہ و اس کے بعد راجہ کی نسلوں کے پاس ہی رہیں گے کہ سامراج انگریز کے نامزد گورنر لارڈ ڈلہوزی نے رانی سے ریاست جھانسی کے حکومتی امور سے دستبردار ہونے کو کہا۔

رانی نے انگریز سامراج کا مطالبہ تسلیم کرنے سے انکار کر دیا اور مزاحمت کا راستہ اپناتے ہوئے سامراج مخالف جدوجہد جاری رکھنے کا عزم ظاہر کیا۔ رانی کی اس روش کو دیکھتے ہوئے فرنگی سرکار نے جھانسی پر ایک بھرپور حملہ کیا اس وقت رانی کی عسکری قوت و فرنگی سرکار کی عددی قوت کو مدنظر رکھا جائے تو مقابلہ ایک اور بیس کا تھا۔ مگر باہمت رانی نے بھرپور مزاحمت کی اور انگریز فوج کو لوہے کے چنے چبوا دیے۔ ممکن تھا کہ اس جنگ کا نتیجہ رانی کے حق میں جاتا کہ رانی کے ایک وزیر نے غداری کرتے ہوئے خارجی دروازہ کھول دیا۔

رانی کی وفادار باندی نے مزاحمت کی تو اسے بھی قتل کر دیا گیا اور انگریز فوجی قلعے کے اندر داخل ہو گئے۔ رانی و اس کی وفادار فوج نے مقابلہ کیا مگر عددی قوت کم ہونے کے باعث اس کے شکست واضح نظر آنے لگی چنانچہ رانی نے گرفتاری سے بچنے کے لیے قلعے کی فصیل سے چھلانگ لگا دی اور گھوڑے پر سوار ہو کر راہ فرار حاصل کی۔ البتہ راستے میں ایک چھوٹی نہر تھی جسے رانی کا گھوڑا چھلانگ لگا کر پار نہ کر سکا اور رانی کا پیچھا کرنے والے انگریز فوجیوں نے رانی پر حملہ کر دیا۔ رانی نے اپنی جان قربان کر کے ہندوستان کی آزادی کی تحریک کا آغاز کر دیا۔ اگلے 90 برس فرنگی سرکار کو ہندوستانیوں کی شدید مزاحمت کا سامنا رہا۔  1858ء میں جاں بحق ہونے والی رانی نے فقط 30 برس کی عمر پائی البتہ لوگوں کے دلوں میں رانی آج بھی زندہ ہے۔ 19 نومبر 2017ء کو رانی کا 189 واں جنم دن ہے۔

ایم اسلم کھوکھر
 

Post a Comment

0 Comments