جب بھی کسی مشرک نے سرورِ کونین حضرت محمدﷺ کی شان میں گستاخی کی وہ اپنے درد ناک انجام کو پہنچا۔ ہندو ناشر مہاشہ راجپال نے آپ ﷺ کے بارے میں گستاخانہ کتاب چھاپی۔ یہ منظر عام پر آئی تو مسلمانوں کے دل لرز گئے۔ اس کے خلاف اس صدی میں بڑے بڑے جلسے ہوئے اور اس کو واصلِ جہنم کرنے کا شرف علم الدین کو حاصل ہوا۔ غازی علم الدین شہید کی ساتویں پشت ’’لہنا سنگھ‘‘ سے ملتی ہے، جو مغل بادشاہ نورالدین محمد جہانگیر کے زمانے میں مسلمان ہوئے، اور حضرت برخوردار کے نام سے زاہد و پرہیزگار مشہور ہوئے۔ آپ کی چھٹی پشت سے طالع مند اور پھر اسی طالع مند کے گھر 4 دسمبر 1908ء بمطابق 8 ذی القعد 1326 ہجری بروز جمعرات کو علم الدین پیدا ہوئے۔ آپ بمقام کوچہ چابک سواراں سریانوالہ بازار لاہور جو آج بھی آپ کی وجہ سے کوچہ ’’سرفروشاں‘‘ کہلاتا ہے، اِس کے نواح میں بچپن گزارا۔ علم الدین کے والد مستری طالع مند، والدہ چراغ بی بی ، بڑا بھائی محمد دین اور ہمشیرہ(بہن) معراج بیگم تھیں۔
آپ نے ابتدائی تعلیم مدرسے میں حاصل کی۔آپ کو پڑھائی سے کچھ خاص لگاؤ نہیں تھا۔ لہٰذا آپ کے والد محترم مستری طالع مند نے آپ کو بھی بڑھئی (لکڑی) کا کام سکھا دیا۔ آپ نے اپنے بھائی سے بھی سیکھا مگر مستری نظام الدین نے آپ کو اعلیٰ پائے کا کاریگر بنا دیا، اِس طرح آپ لاہور اور ملتان میں بھی کام کے لیے گئے اور پھر یکم جنوری 1928 ء کو والد محترم کے ہمراہ کوہاٹ گئے، وہاں ٹھیکہ لے رکھا تھا۔ کوہاٹ آپ کو راس آ گیا اور آپ تنو مند ہو گئے ۔ اسی دوران مارچ 1929ء میں بڑے بھائی محمد دین کے گھر بچی پیدا ہوئی ، اسے دیکھنے لاہور آئے اور 28 مارچ 1929ء کو آپ کی منگنی ماموں زاد فاطمہ بی بی سے ہوئی۔
انہی دنوں لاہور کے ہر گلی کوچے میں ہندو ناشر راجپال کا نام واجب القتل کے لیے گونج رہا تھا۔ ہر دل غمگین اور ہر آنکھ اشکبار۔ متعدد جوان اس کو واصلِ جہنم کرنے کے متلاشی تھے۔ حکومت برطانیہ نے اس کو اس عمل پر 6 ماہ قید کی سزا سنائی مگر شدھی اور سنگھٹن نے اس کو رہا کروایا بلکہ اس کے لیے پولیس تعینات کی گئی۔ علم الدین کے اندر بھی چنگاری جل چکی تھی مگرآپ سے پہلے دو مسلمان مجاہد غازی عبدالعزیز خان اور لاہور سے غازی خدا بخش نے راجپال پر حملہ کیا مگر وہ زخمی اور غازی عبدالعزیز کو 14سال جبکہ غازی خدا بخش کو 7 سال قید سنائی گئی ۔
آپ نے فجر کی نماز لال مسجد (شاہ عالمی دروازہ) میں ادا کی۔ آتما رام کباڑیے سے ایک روپے عوض لیا ہوا چھرا لے کر نکلے۔ اور اس کی دوکان واقع میو ہسپتال روڈ نزد گلی پان والی پر پہنچے اور چھرا اس کے سینے میں پیوست کر دیا۔ پولیس ملازم کھانا کھانے گئے تھے۔ راجپال کے ملازم بھگت رام اورکدار ناتھ دکان پر موجود تھے، مگر بت بنے کھڑے تھے۔ اس کے بعد (ودیا رتن) کے ٹال پر پہنچے ۔ ’’راجپال قتل ہو گیا‘‘، ہر طرف اب یہی گونج رہا تھا۔ اچانک غازی صاحب کے دل میں خیال آیا کہیں راجپال بچ نہ گیا ہو، لہٰذا اسی وقت اس کی دکان پر گئے آپ کے ہونٹوں پر تبسم تھا پولیس نے راجپال کے ملازموں کی نشاندہی پر آپ کو گرفتار کر لیا۔ اور نعروں کی گونج میں آپ نے واشگاف الفاظ میں مسکراتے ہوئے کہا:۔’’خدا کا شکر ہے میری محنت ٹھکانے لگی ‘‘۔
کدارناتھ نے انار کلی تھانے میں قتل کی رپورٹ درج کروائی اور شہر میں دفعہ 144 نافذ کر دی، رات کو راجپال کا پوسٹ مارٹم ہو چکا تھا۔ صبح ہندوؤں کے جمِ غفیر میں نعش ورثا کے حوالے کی گئی اور نعش کو باغ بیرون ٹکسالی دروازہ سپرد آتش کیا گیا اور راکھ راوی کے تندو تیز موجوں کے حوالے کی گئی۔ مہاشہ راجپال کے قتل کا مقدمہ سنٹرل جیل میں ایڈیشنل ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ مسٹر ای۔ایس۔لوئیس کے سامنے پیش کیا گیا۔غازی صاحب شفاف لباس اور ہتھکڑیوں سے لیس بینچ پر بیٹھے تھے۔ آپ نے قتل قبول کیا۔ غازی موصوف کی طرف سے فرخ حسین بیرسٹر نے مقدمے کی پیروی کی، مگر آپ کو سزائے موت سنائی گئی۔
اپیل کی گئی۔ اہلِ لاہور نے علامہ اقبالؒ کی سرکردگی میں مقدمے کی پیروی کرنے کے لیے محمد علی جناحؒ کی خدمات حاصل کیں، آپ ممبئی سے لاہور آئے۔ مقدمے کی پیروی میں غازی علم الدین نے قتل کا اعتراف کیا جسے آپ نے نہ بدلا۔ قائد اعظم محمد علی جناحؒ نے کیس کا رخ بدل دیا مگر آپ کی سزا برقرار رہی ، کیس کے لیے علم الدین ڈیفنس کمیٹی قائم کی گئی ، چندہ جمع کیا گیا، پریوی کونسل تک اٹھارہ ہزار روپے کے اخراجات ہوئے مگر آریہ سماج، شڈھی سنگھٹن کے دباؤ نے انگریز حکومت کو بھی فیصلہ نہ بدلنے دیا اور آپ کو پھانسی کی سزا سنائی گئی۔ غازی موصوف کا مقام و مرتبہ اس بات سے بھی واضح ہو جاتا ہے کہ آپ لکھنا پڑھنا نہیں جانتے تھے لیکن آپ کے قیامِ جیل میں پورا قرآن پاک آپ کو حفظ ہو گیا۔
پریوی کونسل لندن نے پہلے آپ کو لاہور میں پھانسی دینی تھی مگر وہ مسلمانوں کے غیظ و غضب سے ڈرتے تھے لہٰذا آپ کو 3 اکتوبر کو ساڑھے نو بجے شب سنٹرل جیل لاہور سے بذریعہ موٹر گوجرانوالہ اور وہاں سے ساڑھے بارہ بجے رات گاڑی میں میانوالی روانہ کیا گیا۔ یہاں 4 اکتوبر کو صبح سویرے فرسٹ کلاس ڈبے سے غازی صاحب اترے اور پولیس حراست میں میانوالی جیل لائے گئے۔ ہر روز سینکڑوں افراد دیدار کے لیے جیل آتے.
اس کے علاوہ شاعر، بزرگ، بچے اوربوڑھے بھی دور دور سے آپ کی ایک جھلک دیکھنے کے لیے آتے۔ 30 اکتوبر کو آخری ملاقات کے لیے غازی علم شہید کے ورثا کو میانوالی جیل میں بلایا گیا ۔اس دن آپ روزے سے تھے ۔ 30 اور31 اکتوبر کی درمیانی شب گویا آپ کے لیے شب برات سے کم نہ تھی۔ ظاہری طور پر یہ آپ کی دنیا میں آخری رات تھی مگر یہ تو آپ کو ہی معلوم تھا کہ وہ یہاں فانی سے لافانی دنیا میں پہنچ جائیں گے، پھانسی کی خبر ہر طرف پھیل چکی تھی، اور لوگ جیل سے دور میلوں کے فاصلے تک ریتلے میدان میں ساری رات درود شریف کا ورد کرتے رہے۔ 31 اکتوبر1929ء کی صبح صادق پروانہ شمع رسالت خالق حقیقی سے جا ملا۔ آپ کو آٹھ بجے تختہ دار سے اتارا گیا۔
دس بجے شہید کی نعش کو چارپائی پر ڈال کر جیل سے باہر لایا گیا۔ دروازے پر ہزاروں آنکھیں شہید کا دیدار کرنے کے لیے بیتاب تھیں، پولیس نے لوگوں کو جنازہ نہ پڑھنے دیا ان پر پتھراؤ کیا بلکہ غازی و شہید کو انگریز حکومت کے حکم پر لاوارثوں کے قبرستان میں بے گورو کفن اور جنازے کے بغیر گڑھے میں ڈال دیا۔ اہلِ لاہور نے جب یہ سنا تو ہر طرف احتجاج ہوا۔ علما اکٹھے ہوئے، علامہ اقبالؒ، سر محمد شفیع ، دیدار علی شاہ، مولانا ظفر علی خاں کی قیادت میں مسلمان آپ کا جسدِ خاکی انگریز حکومت سے لینے میں کامیاب ہو گئے اور لاہور کو پر امن رکھنے کی تمام تر ذمہ داری علامہ محمد اقبال ؒنے اپنے سر لی۔ 3 نومبر کی رات قبر کشائی کی گئی ، علامہ محمد اقبالؒ کی ہدایت کے مطابق میانوالی کے مستری نور دین اور اس کے دو تین ساتھیوں نے ہاتھوں سے گڑھے کو کھودا۔ آپ کو لاہور کے مشہور قبرستان (میانی صاحب) میں قبر میں اتارا گیا۔ آپ کا مزار چوبرجی لاہور سے چند منٹ کی مسافت پر ہے۔
0 Comments