Great Warriors

6/recent/ticker-posts

ایک انصاف پسند اور انقلابی حکمران ٹیپو سلطان

ٹیپو سلطان کو ایسا حکمران تسلیم کیا جاتا ہے، جس نے اپنی ریاست میں سماجی
انصاف اور رواداری کے پرچم کو ہمیشہ بلند رکھا۔ تاریخ کے صفحات میں درج ہے کہ نوجوانی میں ٹیپو سلطان کو کتب بینی کا بڑا شوق تھا، لیکن اس کے والد حیدر علی نے ایک مرتبہ اس کے کان میں یہ بات ڈالی کہ کتاب نہیں بلکہ اسے تلوار سے محبت کرنی چاہیے۔ حیدر علی کی رائے میں سلطنت (میسور) کو بچانے کے لیے کتاب سے زیادہ تلوار کی ضرورت ہے۔ کچھ مورخ یہ کہتے ہیں کہ اگر حیدر علی، ٹیپو سلطان کی مطالعے کی عادت پر پابندی نہ لگاتا تو ٹیپو سلطان کا نام آج ایک مفکر کی حیثیت سے تاریخ کے صفحات میں زندہ ہوتا۔ بہرحال یہ تو ٹیپو سلطان کی تقدیر میں لکھا تھا کہ وہ میسور کا حکمران بنتا اور شجاعت اورپامردی کی نئی داستانیں رقم کرتا۔ ٹیپو سلطان اپنے عوام میں بہت مقبول تھا اور اس کی سب سے بڑی وجہ یہ تھی کہ وہ تعصبات سے بالکل آزاد تھا۔ سماجی سطح پر اس نے ہندوئوں اور مسلمانوں میں کبھی امتیاز نہیں کیا۔

ٹیپو سلطان جونہی تخت نشین ہوا ،تو اس نے فوری طور پر پالیگاروں کا خاتمہ کر دیا اور زمین کو کسانوں کی ملکیت قرار دیا۔ مقامی زبان میں جاگیردار یا زمیندار کو پالیگار کہا جاتا تھا۔ ٹیپو کے اس انقلابی قدم کی وجہ سے ہندو اور مسلمان سب اس کے گن گانے لگے۔ زمین پر کسان کا ہمیشہ کے لیے حق تسلیم کر لیا گیا۔ یہ طے پا گیا کہ زمین اس کی ہو گی، جو ہل چلائے گا۔ اس نے لاکھوں انسانوں کو خوشی سے ہمکنار کیا چونکہ وہ کسانوں کا دوست تھا، اسی لیے پالیگار اس کے دشمن ہو گئے۔ جاگیرداری ختم ہونے کے بعد کسان خوشحال ہو گئے۔ انگریزوں نے ٹیپو سلطان کو بدنام کرنے کے لیے پہ پروپیگنڈہ شروع کر دیا کہ ٹیپو بڑا جابر اور سفاک حکمران ہے، جس کی وجہ سے میسور کے عوام اس سے تنگ ہیں حالانکہ حقیقت یہ تھی کہ عوام اور فوج دونوں کے دل میں اس کے لیے بے پناہ احترام تھا۔ ٹیپو سلطان کے دور میں صنعت و حرفت ترقی کے ایک نئے دور میں داخل ہوئی۔ ایک مورخ اس عہد کے میسور کے بارے میں لکھتا ہے کہ جب انگریزی فوجیں میسور میں داخل ہوئیں، تو اس وقت پورے میسور میں سلطان کی ہر دلعزیزی عروج پر تھی اور تمام رعایا اپنے سلطان سے والہانہ محبت کا اظہار کر رہی تھی۔ 
یہ حقیقت بھی بیان کی جاتی ہے کہ میسور ہندوستان کا سب سے زیادہ سرسبز علاقہ تھا اور اس کے رہنے والے بہت خوشحالی کی زندگی بسر کر رہے تھے۔ سلطان ٹیپو ایک بہترین منتظم تھا۔ اس نے بڑی عمدگی سے پولیس کو منظم کیا۔ اس نے جاسوسوں کی سرکوبی کے لیے خفیہ پولیس بنائی۔ سلطان ٹیپو کے نزدیک عوام کو ڈاکوئوں سے مقابلہ کرنے کے لیے اسلحے سے لیس ہونا چاہیے، اس لیے لوگوں کو اسلحہ رکھنے کی اجازت دیدی گئی۔ سلطان نے ڈاک کا نظام بہت بہتر بنایا۔ ہر شہر میں قاضی مقدمات کا فیصلہ کرتا تھا جبکہ گائوں میں اس فرض کی ادائیگی کے لیے پنچائیت موجود تھی۔ ٹیپو سلطان نے میسور کے دفاع کی طرف بھی بھرپور توجہ دی تھی۔ اس نے ڈٹ کر ایسٹ انڈیا کمپنی کی ریشہ دوانیوں کا مقابلہ کیا جبکہ کمپنی اس کی دشمن تھی۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ سلطان انگریزی استعمار کی راہ میں سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن کر کھڑا تھا۔ 

نپولین بونا پارٹ کے ساتھ ٹیپو سلطان کی بڑی دوستی تھی۔ نپولین ایک بہت بڑی مشرقی ریاست سلطنت قائم کرنے کا آرزومند تھا۔ مصر کی مہم کے دوران نپولین ٹیپو سلطان اور مرہٹہ سرداروں سے خط کتابت کرتا رہا۔ ٹیپو کے دربار میں فرانسیسیوں نے بہت اثر و رسوخ حاصل کر لیا تھا۔ ٹیپو نے نپولین کو ہندوستان پر حملے کی دعوت بھی دی۔ اگر نپولین ٹیپو کی بات مان لیتا، تو آج شاید ہندوستان کی تاریخ کچھ اور ہوتی۔ ٹیپو کم عمری میں ہی فکر افروز تقریریں کیا کرتا تھا۔ انگریزی سامراج کے خلاف اس کے اقوال عوام میں شدید جوش و جذبہ پیدا کر دیتے تھے۔ اس کا یہ قول تو آج بھی دلوں کو گرما دیتا ہے کہ ’’شیر کی ایک دن کی زندگی گیڈر کی سو سالہ زندگی سے بہتر ہے‘‘ اکیس سال کی عمر میں سلطان ٹیپو نے مرہٹوں اور مشہور جنرل ترک رائو کا مقابلہ کیا۔ جنرل بیلی کو شکست سے ہمکنار کرنے میں ٹیپو کا بہت بڑا ہاتھ تھا۔ ٹیپو سلطان قوم پرست بھی تھا اور سامراج دشمن بھی۔ ظاہر ہے ایک سچا قوم پرست سامراج کا دوست ہو ہی نہیں سکتا۔ فرانزفینن نے کیا خوبصورت بات کہی تھی کہ قوم پرستی اور سامراج دوستی اکٹھے نہیں چل سکتے۔ (Nationalism and anti-imperialism cannot go side by side) ٹیپو سلطان کے بارے میں یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اسے تاریخ کا بڑا ادارک تھا۔ 

تاریخ میں جتنے بھی رحم دل اور انصاف پسند حکمران گزرے ہیں، وہ ان سے بہت متاثر تھا۔ اس کے دور کا ایک واقعہ سلطان کی انصاف پسندی اور انسان دوستی کا بین ثبوت ہے۔ ایک غریب ہندو بیوہ کے بیٹے کو ایک ظالم اور طاقتور شخص نے اپنا حق مانگنے پر موت کی وادی میں اتار دیا۔ وہ بیوہ عورت دکھ کے سمندر میں ڈوب گئی۔ سلطان ایک مہم کے سلسلے میں شہر سے باہر تھا۔ وہ ہندو بیوہ فریاد کناں تھی اور سلطان سلطان پکارتی رہی۔ جب سلطان کی واپسی ہوئی، تو وہ فوری طور پر اس بیوہ کے پاس پہنچا۔ وہاں اسے علم ہوا کہ وہ بیوہ سلطان سلطان پکارتی اس جہان سے رخصت ہو چکی ہے۔ یہ دیکھ کر سلطان کی آنکھوں سے آنسوئوں کی جھڑی لگ گئی۔ اس نے اس بیوہ کی چتا کے پاس آ کر کہا ’’یہ تونے کیا غضب کیا، اپنے سلطان کی آمد کا بھی انتظار نہیں کیا‘‘ اس کے بعد اس کے بیٹے کے قاتل کو فوری طور پر قاضی کے حوالے کیا، جس نے اسے سزائے موت کا حکم سنایا۔

انصاف کے معاملے میں سلطان نے عمر بھر کبھی سمجھوتہ نہیں کیا۔ سلطان ٹیپو نے میسور کی چار جنگوں میں حصہ لیا۔ 1799ء میں چوتھی جنگ میں وہ سرنگا پٹم کی حفاظت کرتے ہوئے شہید ہو گیا۔ یہ ایک المناک حقیقت ہے کہ اکثر مسلم حکمرانوں کو غداروں کے ہاتھوں شکست کی ہزیمت اٹھانا پڑی۔ اگر بنگال میں نواب سراج الدولہ کو میر جعفر کی غداری کی وجہ سے شکست ہوئی تو ٹیپو سلطان کو بھی میر صادق جیسا غدار ملا۔ علامہ اقبال نے ان دونوں غداروں کے بارے میں کہا ہے: جعفر از بنگال، صادق از دکن ننگِ ملت، ننگِ دیں، ننگِ وطن بھارت میں مسلم حکمرانوں پر بہت سی فلمیں بنائی گئیں۔ ان کی فلموں میں شہنشاہ جلال الدین اکبر کے بعد جس حکمران کو سب سے زیادہ خراج عقیدت پیش کیا گیا ، وہ ٹیپو سلطان تھا۔ کوئی متعصب سے متعصب ہندو مورخ یہ ثابت نہیں کر سکتا کہ ٹیپو سلطان ایک منصف مزاج حکمران نہیں تھا، جس نے محبت اور رواداری کی نئی داستانیں رقم کیں۔ ٹیپو سلطان کا نام تاریخ کے صفحات میں ہمیشہ سنہرے لفظوں میں لکھا جائے گا۔ 

عبدالحفیظ ظفرؔ

Post a Comment

0 Comments