tag:blogger.com,1999:blog-65583240541350468722024-03-18T20:12:14.624-07:00The Greatest WarriorsThe great generals and warriors of history who changed history with their bravery and fighting skills.KHAWAJA UMER FAROOQhttp://www.blogger.com/profile/11468318155300615604noreply@blogger.comBlogger126125tag:blogger.com,1999:blog-6558324054135046872.post-86137251570778125642023-09-20T04:30:00.000-07:002023-09-20T04:30:58.137-07:00شیر خوارزم سلطان جلال الدین ’’ ہزار مرد‘‘ کے قلعے تک<h2 dir="rtl" style="text-align: right;"><div class="separator" style="clear: both; text-align: center;"><a href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEjOG1DChiR8aF3omTtiQKvf8gzL2e_TGAAXSkO__psSqEKfMpLPFPeiFycNRaPnkOF5fafRW4XiyZEzM7vWLta8LJ-gUbD6vQ-a5enQooze9NHF92JRpC_f5n8A71ZX5HwkTpKm_7KGBF8Yvqy53xmrJ6hyLq6eklKwYdtnLQmF9smds0CwG9m0k94PP70/s4491/Jalaluddin%20Khwarazm%20Shah%203.jpg" style="margin-left: 1em; margin-right: 1em;"><img border="0" data-original-height="3071" data-original-width="4491" height="274" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEjOG1DChiR8aF3omTtiQKvf8gzL2e_TGAAXSkO__psSqEKfMpLPFPeiFycNRaPnkOF5fafRW4XiyZEzM7vWLta8LJ-gUbD6vQ-a5enQooze9NHF92JRpC_f5n8A71ZX5HwkTpKm_7KGBF8Yvqy53xmrJ6hyLq6eklKwYdtnLQmF9smds0CwG9m0k94PP70/w400-h274/Jalaluddin%20Khwarazm%20Shah%203.jpg" width="400" /></a></div>سون کی وادی میں کچے راستے پر میلوں اندر جانے کے بعد ایک موڑ آیا تو دور پہاڑ کی چوٹی پر جلال الدین خوارزم شاہ کے قلعے پر پہلی نظر پڑی اور حیرت سے وہیں جم کر رہ گئی ۔ قلعہ نہیں تھا ، یہ شیر خوارم کی کچھار تھی۔ بادشاہوں کے قلعے دلی، لاہور اور روہتاس کے قلعوں جیسے ہوتے ہوں گے لیکن شیروں کی کچھار ایسی ہی ہوتی ہے جیسے یہ قلعہ تھا۔ قدرت نے شاید یہ پہاڑ بنایا ہی اسی لیے تھا کہ ایک روز خوارزم کا زخمی سلطان یہاں آئے تو سنگلاخ چٹانیں اس کا قالین ، نیلا آسمان اس کی چھت اور حیران کر دینے والا عمودی پہاڑ اس کی فصیل بن جائیں ۔ ۔۔۔ یہ قلعہ تلاجھہ تھا۔ جلال الدین پر ہمارے ہاں بہت کم لکھا گیا لیکن اس کے باوجود جب جب اس کی کہانی پڑھی، سحر سا طاری ہو گیا۔ ازبک شاعر سیف الدین نے لکھا تھا جب ہم اپنے قبیلے کے بہادروں کے قصے لکھتے ہیں تو ہم جلال الدین کا ذکر نہیں کرتے کہ جہاں شیر خوارزم کی عملداری شروع ہوتی ہیں وہاں بہادری بھی ختم ہو جاتی ہے ۔ فارسی کے شاعروں نے اسے ’ ہزار مرد‘ کہا یعنی ایسا شجاع اور ایسا دلیر جو ہزار مردوں کے برابر ہو۔ ازبکستان سے ترکی تک لوک داستانوں میں اسے مینگو باردی کہا جاتا ہے ، ایسا دلاور جسے کبھی موت نہیں آتی۔</h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;">چنگیزخان کو زندگی میں دو بڑی جنگوں اور سات چھوٹی جھڑپوں میں شکست ہوئی ، ہر بار مد مقابل ایک ہی تھا : سلطان جلال الدین۔ چنگیز خان نے صرف ایک ہی دشمن کو بہادری پر خراج تحسین پیش کیا تھا وہ بھی جلال الدین تھا۔ نور الدین کورلاخ نے درست کہا تھا سلطان جلال الدین مسلم دنیا کا فدیہ تھا۔ یہ نہ ہوتا تو چنگیز خان کے ہاتھوں مسلم دنیا کی تباہی کی داستان زیادہ طویل اور دلفگار ہوتی ۔ اس کا باپ چنگیز سے مقابلے کے لیے اس کا مشورہ مان لیتا تو شاید دنیا کی تاریخ مختلف ہوتی۔ اس کے بھائی سازشیں کر کے تخت پر قابض نہ ہوتے تو شاید پھر بھی تاریخ کی کروٹ کچھ اور ہوتی۔ کیسا نجیب انسان تھا ، تخت بھائیوں کے پاس چھوڑ کر جنگل کو نکل گیا کہ سلطنت کسی اور آمائش میں نہ پڑ جائے۔ شکست کی راکھ سے اس نے عزیمت کا پرچم اٹھایا ۔ کبھی ہزارکبھی پانچ ہزار ، جتنے جنگجو ملتے وہ ان کے ساتھ چنگیز خان کے لیے چیلنج بنا رہا یہاں تک کہ وہ وقت آیا جب اس کے پاس ایک لشکر جرار تھا۔ اس نے چنگیز خان کو لکھا : تم میرے لیے جنگل جنگل خاک چھان رہے ہو، میں اس وقت یہاں بیٹھا ہوں ۔ تم آئو گے یا میں آئوں‘‘۔ میجر ریوٹی نے لکھا ہے چنگیز خان کی زندگی میں یہ پہلا موقع تھا اسے کسی نے یوں چیلنج کیا ہواور چنگیز خان چیلنج قبول کرنے کی ہمت نہ کر سکا۔</h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;"><div class="separator" style="clear: both; text-align: center;"><a href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEjzUmSBRLvtCyiUmBXVp4R56DNlqWTwyewfYbqJWdPDPXGxtqljfk5ko6hhfzxbRTljhitWeMPA452KeR85sM13VnpuGYWW7qfQ2z1MDcLSvClfmV8hN2W_LjdGR0vXtKVFPUKOKycdv8_Lxnbwg7FdPeoypRVzydJE1fEehaAyDJnukf5Ep7vG2Npe8_E/s8688/Jalaluddin%20Khwarazm%20Shah%204.jpg" style="margin-left: 1em; margin-right: 1em;"><img border="0" data-original-height="5792" data-original-width="8688" height="266" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEjzUmSBRLvtCyiUmBXVp4R56DNlqWTwyewfYbqJWdPDPXGxtqljfk5ko6hhfzxbRTljhitWeMPA452KeR85sM13VnpuGYWW7qfQ2z1MDcLSvClfmV8hN2W_LjdGR0vXtKVFPUKOKycdv8_Lxnbwg7FdPeoypRVzydJE1fEehaAyDJnukf5Ep7vG2Npe8_E/w400-h266/Jalaluddin%20Khwarazm%20Shah%204.jpg" width="400" /></a></div></h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;">اسے معلوم تھا اگر جلال الدین یوں للکار رہا ہے تو شیر کے منہ میں سر دینا حکمت نہیں ۔۔۔۔۔۔ یہ میرے الفاظ نہیں، چنگیزخان کے اس تذبذب کی یہ کہانی امیر عطا نے صدیوں پہلی لکھ دی تھی۔ وہ لکھتے ہیں شیر خوارزم کے اس چیلنج نے چنگیز کو پاگل کر دیا تھا ۔ وہ صبح سے شام لشکر کی تیاریوں پر صرف کرنے لگ گیا۔ لیکن پھر بھی اسے تسلی نہیں ہو ررہی تھی کہ کیا وہ جلال الدین کا مقابلہ کرنے کو تیار ہے یا ابھی کچھ کمی رہ گئی ہے۔ اسے معلوم تھا للکارنے والا کون ہے۔ یہاں تک کہ پھر ایک گھوڑے پر سلطان کے لشکر کے سالاروں میں جھگڑا ہو گیا اور پھوٹ پر گئی۔ افغان سالار ناراض ہو کرلشکر لے کر چلا گیا۔ امیر عطا لکھتے ہیں جلال الدین کو خبر ہوئی تو بھاگ کر خیمے سے باہر آیا، ان کی منتیں کیں، رویا کہ ایسا نہ کرو ، مسلمانوں کے مستقبل کا خیال کرو لیکن جانے والوں کو کوئی کب روک سکا ہے۔لشکر آدھا رہ گیا۔ چنگیز خان تو گویا اسی موقع کے انتظار میں تھا۔ باقی تاریخ ہے۔</h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;">آخری بڑی لڑائی دریائے سندھ کے کنارے ہوئی جب سازشوں اور داخلی جھگڑوں سے نڈھال سلطان جلال الدین تیس ہزار پناہ گزینوں ، تین ہزار گھڑ سواروں اور پانچ سو کے قریب محافظوں کے ساتھ ہندوستان جا رہا تھا کہ چنگیز خان دو لاکھ کے لشکر کے ساتھ آن پہنچا۔ تین ہزار گھڑ سواروں کا مقابلہ پچاس ہزار گھڑ سواروں سے تھا۔ گلوبل کرونالوجی آف کانفلیکٹ کے مصنف نے لکھا کہ جلال الدین یوں لڑا کہ چنگیزخان حیران رہ گیا۔ اس نے چنگیز کے لشکر کو ادھیڑا اور اس کے مرکز تک جا پہنچا۔ پھر ستر ہزار کی مزید کمک چنگیز کو آن پہنچی۔ زخموں سے نڈھال سلطان گھیرے میں آگیا تو چنگیز نے حکم دیا اسے زندہ گرفتار کر کے پیش کیا جائے۔ سلطان کے سامنے چنگیز تھا اور پیچھے دریائے سندھ ۔ اس نے گرفتاری دینے کی بجائے پہاڑ سے گھوڑا دریا میں ڈال دیا۔ یہ نسیم حجازی کی نہیں میجر ریوٹی کی روایت ہے کہ چنگیز خان کو اس کے تعاقب میں گھوڑا دریا میں ڈالنے کی ہمت نہ ہو سکی۔ </h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;">وہ حیران کھڑا زخمی سلطان کو دیکھتا رہا ، اسے یقین نہیں آ رہا تھا کوئی یوں بھی کر سکتا ہے۔ پھر اس نے اپنی فوج کے سالاروں کو بلا کر کہا : اس شخص کو دیکھو، اس کی ماں کو اس پر فخر ہونا چاہیے ، کیسا بہادر پیدا کیا۔ لیکن یہی وہ وقت تھا جب سلطان کی ماں وہی پاس کہیں دریا میں ڈوب کر مر رہی تھی۔ یہ واقعہ ازبک ، فارسی اور ترک لوک داستانوں کا حصہ ہے اور اس کی منظر کشی بھی کی گئی ہے۔ یہ مقام پاکستان میں ہے اور ’’ گھوڑا ترپ‘‘ کے نام سے مشہور ہے۔ لوگ دیکھتے ہیں اور یقین نہیں کرتے کہ کوئی یہاں پہاڑ سے سیدھا نیچے دریا میں گھوڑا ڈال سکتا ہے۔ میں اسی جستجو میں تھا کہ دریائے سندھ میں اترنے کے بعد سلطان کہاں گیا جب ایک دن ترک وزارت خارجہ کی ایک دستاویز سے معلوم ہوا کہ وہ خوشاب کے پاس ایک قلعے میں رہا۔ مزید تلاش کی تو معلوم ہوا وہ تلاجھہ فورٹ ہے ۔ برادرم جہانگیر اعوان کو فون کیا، پروگرام بنا اور اب ملک جہانگیر، ملک جہانزیب ، ملک اورنگزیب اور شہباز چوہان پر مشتمل ہمارا قافلہ تپتی دھوپ میں اس قلعے کے نیچے کھڑے تھا جہاں ’ ہزار مرد سلطان ‘ نے زندگی کے تین سال گزارے تھے۔ </h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;">بہت سارا سفر ہو چکا تھا لیکن ہم قلعے کی دہلیز پر کھڑے تھے اور قلعہ پہاڑ کی چوٹی پر تھا۔ تھوڑی دیر میں اسے کھڑا دیکھتا رہا اور جمع تفریق کرتا رہا کہ وہاں تک پہنچ پائوں گا یا نہیں۔ اس قلعے کو جلال الدین سے نسبت نہ ہوتی تو یہ طے تھا کہ میں نے وہیں سے لوٹ جانا تھا۔ قلعے سے پہلی ایک ندی آتی ہے۔ اس کے آس پاس کوئلے کی کچھ کانیں ہیں۔ جن کا ذائقہ پانی میں بھی ہے۔ یہ پانی پینے کے قابل نہیں۔ البتہ روایت یہ ہے کہ قلعے کو پانی یہیں اسی گائوں سے فراہم کیا جاتا تھا۔ ہو سکتا ہے اس زمانے میں گائوں میں کوئی کنواں ہو۔ کیونکہ اوپر قلعے میں جو کنواں تھا وہ پانی کے سٹور کے طور پر تو کام آ سکتا تھا لیکن اتنی اونچائی پر اس طرح کے پہاڑ پر پانی کا کنواں نکل آنا نا ممکنات میں سے ہی لگتا ہے۔ یہیں خاموش وادی میں ایک گھر نظر آیا۔ ایک کسان بیل جوتنے جا رہا تھا۔ ساتھ ایک دربار تھا۔اس گائوں کا نام کچھی والا تھا۔ لیکن گائوں میں گھر ایک ہی تھا۔ گھر کے مکین نے ایک ’’ گائیڈ‘‘ ہمارے ساتھ روانہ کر دیا جو سارا راستہ ہم سے شکوہ کرتا رہا کہ تم لوگ جلدی کیوں نہیں چل رہے، شام ہونے والی ہے اور نیچے میری بکریاں میرا انتظار کر رہی ہیں۔ </h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;"> یہ گائیڈ ہمارے ساتھ نہ ہوتا تو ہمارے لیے قلعے تک پہنچنا ناممکن تھا اور پہنچ جاتے تو واپس آنا ممکن نہیں تھا۔ راستہ ہی اتنا پیچیدہ تھا۔ ایک پگڈنڈی غلط مڑ گئے تو کہاں سے کہاں جا پہنچے۔ قلعہ کیا ہے، لمبائی میں پھیلا ایک حیرت کدہ ہے۔ ایک طرف نیچے میدان ہے اور میدان تک یوں سیدھا پہاڑ ہے جیسے دیوار کھڑی کر دی گئی۔ عمومی طور پر پہاڑ کی چھوٹی سے نیچے تک ایک ڈھلوان ہوتی ہے لیکن اس کا مشرق کی ساری طویل پٹی عمودا کھڑی ہے۔ فٹ کا میٹروں کا حساب تو مشکل تھا لیکن یوں سمجھیے کہ مشرق کی سمت اس کی قدرتی فصیل اتنی بن جاتی ہے کہ گویا عام قلعوں کی چالیس پچاس فصیلیں ایک دوسرے کے اوپر کھڑی کر دی گئی ہوں۔ جنوب میں نیچے ڈھلوان نما کھائی ہے اور اس کا اوپر کا حصہ قدرتی فصیل ہے۔ یہی حالت مغرب اور شمال میں ہے۔ شمال مغرب کے درمیان سے قلعے کو راستہ جاتا ہے اور یہ واحد راستہ ہے۔ یہ قریب نصف کلومیٹر قدرتی پہاڑی فصیل کے ساتھ ساتھ چلتا ہے۔ جس نے آنا ہے یہیں سے گزر کر آنا ہے اور فصیل سے صرف پتھر لڑھکا دیے جائیں تو آنے والوں کا کام تمام ہو جائے۔</h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;">قلعے کی کوئی فصیل نہیں ہے۔ فصیل کی اسے ضرورت ہی نہیں کیونکہ پہاڑوں نے چاروں اطراف سے ایک ایسی ہیبت ناک قدرتی فصیل کھڑی کر رکھی ہے جسے پاٹنا کسی کے بس کی بات ہی نہیں۔ اتنی اونچی فصیل ہے کہ اس تک اگر کوئی ہمت کر کے پہنچ جائے تو نیچے دیکھ کر خوف آتا ہے۔ یہی قدرتی پن اور یہی ’ رف اینڈ ٹف‘ قسم کا تاثر اس قلعے کا اصل حسن ہے۔ قلعہ میں داخلے کا ایک ہی راستہ ہے اور یہ راستہ انتہائی تنگ ہے ۔ پہلے فصیل کے ساتھ ساتھ ایک ہموار راستہ آتا ہے پھر ایک تنگ سی پگڈنڈی قلعے کی طرف جاتی ہے۔ ایک وقت میں صرف ایک ہی گھڑ سوار اندر جا سکتا ہو گا ۔ قلعے کا داخلی دروازہ بھی تنگ ہے جس کے اطراف قدرتی پہاڑ کھڑا ہے۔ اس راستے کے علاوہ اندر جانا ممکن ہی نہیں۔ روایت ہے کہ یہاں اندر ایک بڑا سا پتھرہوتا تھا جسے دو سو آدمی دھکیلتے تھے۔ یہ پتھر اس راستے پر رکھ دیا جاتا تھا اور قلعے کا داخلی راستہ بند ہو جاتا تھا۔ میں داخلی راستے کے پتھر پر بیٹھ کر جمع تفریق کرتا رہا کہ چند تیر انداز صرف اس داخلی راستے پر بٹھا دیے جائیں تو کوئی لشکر اندر نہیں آ سکتا۔ اور اگر فصیلوں پر پتھر رکھ کر انہیں لڑھکانے کے لیے چند سو لوگ دستیاب ہوں تو یہ جگہ کسی بھی لشکر جرار کا قبرستان بن جائے۔</h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;">قلعے کے اندر اس طرح کی تعمیرات باقی نہیں رہیں جیسے عام قلعوں میں ہوتی ہیں۔ قلعے کی کوئی فصیل نہیں۔ یہاں فصیل بنانے کی کوئی ضرورت ہی نہیں تھی کیونکہ پہاڑ بذات خود فصیل کا کام کر رہا ہے۔ کچھ کمروں کی بنیادیں اب بھی موجود ہیں لیکن کسی مسالے کے بغیر۔ پتھروں پر پتھر رکھے ہیں لیکن مسالہ نہیں ہے۔ یوں لگتا ہے جیسے اس جگہ کو عارضی کمین گاہ کے طور پر استعمال کیا جاتا رہا ہو۔<br />تصور کریں کہ تین فٹ چوڑا دو فٹ موٹاور آٹھ دس فٹ لمبا پتھر یہاں دیواروں میں چنا گیا ہے۔ خدا جانے یہ پتھریہاں کیسے پہنچا۔ لیکن ایسے تراش کر لگایا گیا ہے جیسے جدید دور میں کسی نے مشین پر کاٹ کر تراش کر کی ٹائلیں لگائی ہوں۔ یہاں ٹی ڈی سی پی نے صرف ایک بورڈ نصب کیا ہوا ہے کہ یہ قلعہ جلال الدین خوارزم شاہ نے بنوایا۔ تا ہم محسوس یہ ہوتا ہے یہاں معروف معنوں میں کوئی قلعہ نہیں تھا۔ چونکہ یہ پہاڑ ایک ناقابل تسخیر قلعہ کی صورت کھڑا تھا تو سلطان جلال الدین نے اسے اپنا پڑائو بنا لیا اور بھاری پتھروں سے عارضی قیام گاہ قائم کر لی۔ سلطان کے ساتھ پناہ گزین بھی تھے اور عورتیں بچے بھی ۔</h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;">روایت یہ ہے کہ تلاجھہ میں سلطان نے عارضی شہر آباد کیا تھا۔ یہ روایت اس لیے درست معلوم ہوتی ہے کہ تلاجھہ کا یہ پہاڑ واقعی اتنا بڑا اور وسیع ہے کہ یہاں قدیم زمانوں کی بستی آباد ہو سکتی ہے۔ اس قلعے میں شاہی قلعے لاہور یا روہتاس کے قلعے کی طرح کی عمارات نہیں ہیں لیکن اس قلعے کے قدرتی پن میں اتنی ہیبت ہے کہ اس کے سامنے لاہور اور روہتاس کے قلعے ‘‘ برگر قلعے‘‘ لگتے ہیں۔ شیر خوارزم اگر ہزار مرد تھا تو اس کا یہ قلعہ تلاجھہ بلاشبہ ’’ ہزار قلعہ‘‘ کہلائے جانے کا مستحق ہے۔ کچھی والا کی ندی عبور کر کے جب پہاڑ کی طرف چڑھائی چڑھنا شروع کی تو راستے میں چند نوجوان ملے ، ان تھکے ہارے نوجوانوں نے ہمیں سمجھانے کی کوشش کی کہ ایک تو راستہ دشوار گزار اور مشکل ہے ، آپ بھول بھی سکتے ہیں اور گم بھی ہو سکتے ہیں اور پھر اوپر کچھ بھی نہیں ہے جسے آپ دیکھنے جا رہے ہیں۔ اب انہیں کون سمجھاتا کہ اس قلعے کی کیا اہمیت ہے۔ اس قلعے کی یہ پہچان تھی ہی کب کہ یہاں کتنی عمارات موجود ہیں اس کی پہچان تو یہ تھی کہ شیر خوارزم نے یہاں زندگی کے تین سال گزارے تھے۔</h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;">اتفاقات ز مانہ دیکھیے جلال الدین کی کہیں قبر نہیں ہے لیکن دنیا اسے مینگو باردی کہتی ہے اور اس کے قلعے میں کوئی عمارت سلامت نہیں ہے لیکن لوگ اس کا قلعہ دیکھنے جاتے ہیں۔ کیونکہ جو جانتے ہیں وہ جانتے ہیں ، اس ویرانے کی تاریخی اہمیت کیا ہے۔ جو نہیں جانتے وہ اتنا جان لیں کہ سلطان جلال الدین ارطغرل ڈرامے میں دکھائے جانے والے سلطان علائو الدین کے کزن تھے۔ دونوں کی آپس میں جنگ بھی ہوئی تھی۔ چنگیز خان سے مگر صرف جلال الدین ہی لڑ سکا۔ باقی کے سلطان اقوال زریں ہی سناتے رہے اور بغداد کے خلیفہ کی طرح بیٹھ کر دہی کے ساتھ کلچہ کھاتے رہے یہاں تک کہ ہلاکو خان سلام عرض کرنے آ پہنچا۔ قلعے میں کچھ قدیم آثار بتاتے ہیں کہ یہاں کیا کچھ تھا۔ یہ یقینا سلطان جلال الدین سے بہت پہلے بھی لوگوں کے زیر استعمال ہو گا اور اس کی سٹریٹیجک لوکیشن دیکھ کر سلطان نے یہاں قیام کیا ہو گا۔ ایک کنواں ہے اور ایک مسجد کے آثار ہیں۔ نیچے کچھ قبریں بھی ہیں جن کے آثار معدوم ہوتے جا رہے ہیں۔ یہ قبریں ایک میدانی سے قطعہ ارضی پر ہیں۔ قلعے کی طرف جاتے ہوئے فصیل کے نیچے ساتھ ساتھ اسی قطعہ ارضی سے گر کر جانا پڑ تا ہے۔ یہ جگہ ایک باغ کی مانند ہے۔ سر سبز۔ ہریالی ہی ہریالی۔ کیا عجب یہاں شیر خوارزم کے شہداء دفن ہوں۔</h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;">خوشاب سے آگے ، وادی سون کی دہلیز کی دہلیز پر نہر کنارے خالق آباد نام کی بستی ہے۔ یہاں سے پہاڑ چند منٹ کے فاصلے پر ہے۔ پہاڑ پر قریب پندرہ منٹ کی ڈرائیو کے بعد دائیں جانب ایک کچا راستہ جاتا ہے۔ سڑک پر بورڈ لگا ہے کہ یہ راستہ بابا کچھی والا کے دربار کی طرف جاتا ہے۔ کسی سرکاری محکمے کو یہ توفیق نہیں ہو سکی کہ یہاں لکھ کر لگا دے یہ راستہ قلعہ تلاجھہ کو جاتا ہے جہاں شیر خوارزم نے زندگی کے تین سال گزارے تھے۔ اسی سے آپ اندازہ کر لیں کہ ہمارے متعلقہ ادارے سیاحت کے فروغ کے لیے کس قدر کوشاں ہیں۔ کسی کو معلوم ہی نہیں اس قلعے کی تاریخی اہمیت کیا ہے اور اس کی اگر مناسب انداز سے تشہیر کر دی جائے تو کتنے سیاح یہاں آ سکتے ہیں۔ ازبکستان میں سلطان جلال الدین کی کیا حیثیت ہے، ہمارے سفیر وں کی بلا جانے۔ ازبکستان میں جلا ل الدین کی حیثیت ایک ہیرو کی سی ہے۔ ابھی ارطغرل کے بعد بوزداغ نے ازبکستان ہی کی معاونت سے میندرمین جلال الدین ڈرامہ تیار کیا ہے جس کا پہلا سین ختم ہو چکا ہے۔ اس ڈرامے کے پریمیئر کے موقع پر تاشقند میں ازبکستان کے کلچر منسٹر عزت بیگ نز بکوف نے بھی شرکت کی تھی۔ نسیم حجازی نے آخری چٹان ناول اسی سلطان جلال الدین پر لکھا تھا ۔ ہم سے یہ تک نہ ہو سکا کہ اس ناول کا ازبک زبان میں ترجمہ کروا کر اس کے نسخے ہی ازبکستان بھجوا دیتے۔</h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;">قلعے سے اتر کر ہم نیچے وادی میں کچھی والا نامی ایک گھر پر مشتمل ’’ گائوں ‘‘ میں پہنچے تو سورج دور پہاڑوں کی اوٹ میں ڈوب رہا تھا۔ ڈھلتے دن کی مدھم ہوتی روشنی میں وادی کے اندر سفر کرتے جب تک قلعہ نظر آتا رہا میں اسے مڑ مڑ کر دیکھتا رہا۔ وادی سون کے باسیوں کو بھلے معلوم نہ ہو لیکن وادی سون کے پہاڑوں کو تو معلوم ہو گا انہوں نے کس بہادر سلطان کی میزبانی کی تھی۔ چنگیز خان نے کہا تھا جلال کی ماں کو فخر کرنا چاہیے کیسا بیٹا پیدا کیا۔ سون کے پہاڑ بھی فخر کرتے ہوں گے انہوں نے اس شخص کو پناہ دی تھی جو تاتاری یلغار کے سامنے عالم اسلام کی آخری چٹان تھا۔</h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;">آصف محمود</h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;">جلال الدین شاہ خوارم کے بارے میں جناب آصف محمود کا یہ مضمون فیس بک سے لیا گیا۔ </h2>KHAWAJA UMER FAROOQhttp://www.blogger.com/profile/11468318155300615604noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-6558324054135046872.post-43322247895969289132023-09-20T04:01:00.001-07:002023-09-20T04:01:46.201-07:00’گھوڑا ترپ‘ جو آج بھی خوارزم شاہ کی بہادری کا گواہ ہے<h2 dir="rtl" style="text-align: right;"> <div class="separator" style="clear: both; text-align: center;"><a href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEj3PRDzLIl5vnKYYlzYSX2qId4PJDqnTgrmprTzFvLm-rNkqV85rhFZRb6JpXQeZjZoJQoYwe60l73hQeylC099Dtsx1J_e6Sr4XhsYvLs3OjcTmC3MImEkB08wp0Zbtbzn-LRPM-9KT1U8OZZWFIMM-ZU-24nnw3UVHt_HxRGemqpLVnVV1GnNXKY4WUs/s4899/Jalaluddin%20Khwarazm%20Shah%209.jpg" style="margin-left: 1em; margin-right: 1em;"><img border="0" data-original-height="3425" data-original-width="4899" height="280" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEj3PRDzLIl5vnKYYlzYSX2qId4PJDqnTgrmprTzFvLm-rNkqV85rhFZRb6JpXQeZjZoJQoYwe60l73hQeylC099Dtsx1J_e6Sr4XhsYvLs3OjcTmC3MImEkB08wp0Zbtbzn-LRPM-9KT1U8OZZWFIMM-ZU-24nnw3UVHt_HxRGemqpLVnVV1GnNXKY4WUs/w400-h280/Jalaluddin%20Khwarazm%20Shah%209.jpg" width="400" /></a></div>دریائے آمو کے مغربی کنارے پر ازبکستان کا ایک شہر خیوا ہے۔ اس شہر نے دنیا کو تین عظیم ہستیاں دیں۔ ایک الخوارزمی جو الجبرا کے بانی ہیں، دوسرے البیرونی جنہوں نے زمین کا قطر ناپا اور تیسرے جلال الدین خوارزمی جو تاتاریوں کے آگے سیسیہ پلائی ہوئی دیوار نہ بنتے اور اگر تاتاری جزیرۃ العرب کا رخ کر لیتے تو کوئی انسانی طاقت انہیں مسلمانوں کے مقامات ِ مقدسہ کے احترام پر مجبور نہیں کر سکتی تھی۔ یہ جلال الدین خوارزمی ہی تھے جنہوں نے اپنی معمولی قوت کے ساتھ تاتاریوں کا سالہا سال مقابلہ کیا اور انہیں حجاز مقدس کی جانب بڑھنے نہیں دیا۔ چنگیز خان نے زندگی میں ایک بار جس سپہ سالار سے شکست کھائی وہ کوئی اور نہیں جلال الدین خوارزم شاہ ہی تھے۔ دنیا کے دو عظیم ترین جنگجو حکمرانوں چنگیز خان اور جلال الدین خوارزمی کے درمیان جو تاریخی معرکہ لڑا گیا وہ اٹک میں نیلاب کے مقام پر لڑا گیا اور یہیں وہ تاریخی مقام گھوڑا ترپ ہے جہاں چار دن کے خونی معرکے کے بعد جلال الدین خوارزم شاہ نے اپنا گھوڑا دریائے سندھ کی موجوں کے سپرد کر دیا تھا۔ اسی پر علامہ اقبال نے کہا تھا:</h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;">دشت تو دشت دریا بھی نہ چھوڑے ہم نے<br />بحرِ ظلمات میں دوڑا دیے گھوڑے ہم نے</h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;">کہتے ہیں کہ اگر تاتاریوں کا سیل بے کراں جو اپنی طغیانی کے پہلے ہی سال میں چین سے لے کر بحیرہ خزر تک کے علاقوں کو اپنی لپیٹ میں لے چکا تھا اگر جلال الدین خوارزم شاہ کی صورت میں ظاہر ہونے والی آہنی دیوار سے ٹکرا کر تھم نہ جاتا تو اگلے دو چار برسوں میں نہ صرف افریقہ بلکہ یورپ اپنی آخری حدود تک اس طوفان کی زد میں آ کر تہہ و بالا ہو جاتا۔ جلال الدین خوارزم شاہ جیسےعظیم سپہ سالار اگر 32 سال کی عمر میں لٹیروں کے ہاتھوں مارے نہ جاتے تو شاید ان کی فتوحات کا جغرافیہ مختلف ہوتا۔ جلال الدین خوارزم کی مسلسل فتوحات نے چنگیز خان کا سارا غرور خاک میں ملا کر رکھ دیا تھا۔ کئی نامور تاتاری سردار مارے جا چکے تھے اور قریب تھا کہ چنگیز خان کا قصہ بھی تمام ہو جائے مگر ہوا یوں کہ جلال الدین خوارزم شاہ کے اپنے لشکر میں پھوٹ پڑ گئی۔ ’پران‘ کے معرکے میں سلطان کے سپاہیوں کو بے شمار مال غنیمت ہاتھ آیا تھا ان میں ایک خوبصورت اور بیش قیمت گھوڑا بھی شامل تھا۔ اس گھوڑے کے استحقاق پر سلطان کے دو سرداروں امین الملک اور سیف الدین اغراق میں بحث شروع ہو گئی۔ </h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;"><div class="separator" style="clear: both; text-align: center;"><a href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEjp84PAzi3HpwIq6LoWb8k8HcCauEjWODNhSSdnGks3ZIU85EwEugsiqASmeopj98-t6Vj8_8qWS_sv5d6LohPFAjsU-e1tbcpikaHDd57VQzMPblFw44vg6vOJmsEaGg10rXnZ118JkH75OG1rNw6YlXjARk4NORacf1mXnrHL2Iu8hcIS5_Ccx6LM4dU/s6000/Jalaluddin%20Khwarazm%20Shah%2010.jpg" style="margin-left: 1em; margin-right: 1em;"><img border="0" data-original-height="4000" data-original-width="6000" height="266" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEjp84PAzi3HpwIq6LoWb8k8HcCauEjWODNhSSdnGks3ZIU85EwEugsiqASmeopj98-t6Vj8_8qWS_sv5d6LohPFAjsU-e1tbcpikaHDd57VQzMPblFw44vg6vOJmsEaGg10rXnZ118JkH75OG1rNw6YlXjARk4NORacf1mXnrHL2Iu8hcIS5_Ccx6LM4dU/w400-h266/Jalaluddin%20Khwarazm%20Shah%2010.jpg" width="400" /></a></div></h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;">دونوں سرداروں کے حامیوں کے درمیان تلواریں نکل آئیں۔ امین الملک کا بھائی مارا گیا۔ سلطان کے لیے صورتحال پر قابو پانا مشکل ہو گیا۔ امین الملک، جلال الدین کا سسر بھی تھے جس کی وجہ سے سیف الدین کو سلطان کی نیت پر شک ہوا۔ اس نے سلطانی لشکر سے علیحدگی کا فیصلہ کر لیا اور رات کی تاریکی میں ننگر ہار کی طرف روانہ ہو گیا، اس کے ہمراہ اس کا لشکر اور کئی امرا بھی تھے۔ سلطان جب صبح اٹھے تو لشکر گاہ ویران پڑی تھی۔ جب چنگیز خان کو سلطانی لشکر میں پھوٹ پڑنے کا علم ہوا تو اس نے اپنا لشکر جمع کر کے خوارزم شاہ کا آندھی کی طرح تعاقب کیا کیونکہ وہ ہر صورت اپنی شکست کا بدلہ لینا چاہتا تھا۔ سلطان نے بھی اپنے حامیوں کی طرف سفیر بھیجے کہ وہ تاتاری لشکر کے خلاف مدد کریں لیکن جب کوئی نہیں آیا تو سلطان نے غزنی سے ہندوستان کی طرف کوچ کیا۔<br />سلطان نے پشاور سے ہٹ کر دریائے سندھ کا رخ کیا تاکہ دریا پار کر کے مسلمان بادشاہ شمس الدین التمش کا تعاون حاصل کر سکیں۔ چنگیز خان کو سلطان کےارادوں کا پتہ تھا اس لیے وہ ہر قیمت پر سلطان کا راستہ دریائے سندھ سے پہلے روکنا چاہتا تھا۔ </h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;">چنگیز خان نے جو ہراول دستہ جلال الدین کے تعاقب میں روانہ کیا تھا سلطان کے فوجیوں نے گھات لگا کر ان میں سے بیشتر کو مارا ڈالا۔ اس خبر سے چنگیز خان تلملا اٹھا اور برق رفتاری سے تعاقب کرنے لگا۔ سلطان کے ہمراہ تیس ہزار کا لشکر تھا جبکہ ان کے تعاقب میں چنگیز خان دو لاکھ کا لشکر لے کر آ رہا تھا۔ دریائے سندھ پورے جوبن پر بہہ رہا تھا اور تیس ہزار کے لشکر کا کم وقت میں دریا پار کرنا ممکن نہیں تھا۔ ادھر تاتاری لشکر سر پر چڑھ آیا تھا۔ جس کی وجہ سے کالا چٹا پہاڑ میں باغ نیلاب کے اس پار سلطان نے اپنا لشکر مجتمع کر کے مقابلہ کرنے کا فیصلہ کیا۔ نیلاب کے کنارے پر تقریباً پانچ میل چوڑا اور بارہ میل لمبا ایک سرسبز میدان ہے۔ سلطان جب اس مقام پر پہنچے تو انہوں نے محسوس کیا کہ تاتاریوں کے سیلاب کا سامنا کرنے کے لیے اس سے بہتر کوئی میدان نہیں۔ یہاں سنگنی ندی دریائے سندھ میں ملتی ہے۔ تاتاری فوجیں بھی صف آرا ہو گئیں۔ سلطان جانتے تھے کہ فرار کا کوئی راستہ نہیں، پیچھے دریا ہے اور سامنے تاتاری لشکر جو تعداد میں کہیں زیادہ ہے۔ </h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;">سورج طلوع ہوتے ہی طبل جنگ بج اٹھا، دو دن گھمسان کی جنگ ہوتی رہی اور خوارزم شاہ کے سپاہی کم تعداد میں ہونے کے باوجود داد شجاعت دیتے رہے۔ تیسرے دن سلطان جلال الادین نے چنگیز خان کو قتل کرنے کی حکمت عملی بنائی کیونکہ یہی ایک صورت تھی جس سے مخالف لشکر کے پاؤں اکھڑ سکتے تھے لیکن یہ کوئی آسان کام نہیں تھا کیونکہ چنگیز خان کے ارد گرد دس ہزار کا زرہ پوش لشکر معمور تھا۔ مگر سلطان کی شمشیر مخالف صفوں کو چیرتی ہوئی چنگیز خان تک پہنچ گئی۔ سلطان کا خیال تھا کہ چنگیز خان انہیں دیکھتے ہوئے مقابلہ کرے گا مگر جب چنگیز خان کا گھوڑا سلطان کے لشکریوں نے مار ڈالا توچنگیز خان گھوڑا تبدیل کرتے ہوئے بھاگ کھڑا ہوا کیونکہ اسے معلوم تھا کہ جلال الدین خوارزم کی تلوار کے آگے وہ ٹھہر نہیں سکے گا۔ چنگیز خان کو بھاگتے ہوئے دیکھ کر اس کا لشکر بھی لرز گیا۔ اس سے پہلے کہ جلال الدین خوارزم نئی حکمت عملی ترتیب دیتے چنگیز خان کی فوج نے پہاڑ کی دوسری جانب سے حملہ کر دیا۔ </h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;">چونکہ خوارزم شاہ کی فوج کا بڑا حصہ چنگیز کو ہلاک کرنے کی حکمت عملی پر عمل پیرا تھا اس لیے پیچھے کی جانب فوج قلیل تعداد میں تھی۔ اس اچانک حملے پر خوارزم شاہ کی فوج پسپا ہونا شروع ہو گئی اور جلال الدین کے کمانڈر امین الملک مارے گئے۔ اب چنگیز خان کے فوجیوں کا ہدف جلال الدین خوارزم شاہ تھے جن کا جانثار دستہ ایک ایک کر کے کٹتا گیا۔ جلال الدین خوارزم شاہ تقریباً پانچ میل پسپائی کے بعد جب اپنے خیمے کے پاس پہنچے تو ان کے ارد گرد صرف سات سو جانثار باقی رہ گئے تھے۔ تاہم وہ مقابلہ جاری رکھے ہوئے تھے وہ زخمی شیر کی طرح ابھی بھی دشمن کی صفیں الٹ پلٹ کر رہے تھے۔ انہیں خبر ملی کہ ان کے سات سالہ بیٹے کو جب چنگیز خان کے سامنے پیش کیا گیا تو ظالم نے اس معصوم کے تلوار سے دو ٹکڑے کر دیے۔ ادھر جلال الدین کو اپنی ماں اور بیوی بچوں کی فکر لاحق ہوئی تو انہوں نے انہیں دریا کے سپرد کر دیا اور یوں پورا خاندان دریا نے اپنی آغوش میں لے لیا مگر سلطان کے پاس آنسو بہانے کی بھی فرصت نہیں تھی۔ سلطان غضب ناکی سے لڑ رہے تھے اور چنگیز خان یہ منظر دیکھ رہا تھا۔ وہ جانتا تھا کہ تھوڑی دیر میں یہ کھیل ختم ہو جائے گا اور سلطان گرفتار ہو کر میرے سامنے ہوں گے۔</h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;">اسی دوران سلطان کے ماموں زاد بھائی ان کے گھوڑے کی لگام پکڑ کر پوری قوت سے انہیں دشمن کے نرغے سے باہر لے آئے۔ سلطان نے دریا کے کنارے چٹانوں پر چڑھ کر پیچھے نگاہ ڈالی تو دشمن کا ریلا سیلاب کی طرح بڑھتا چلا آرہا تھا۔ دوسری طرف دریائے سندھ ٹھاٹھیں مار رہا تھا۔ موجیں اتنی منہ زور تھیں کہ لمحوں میں کسی کو بھی تتر بتر کر دیں۔ سلطان نے نعرہ تکبیر بلند کیا اور گھوڑا دوڑاتے ہوئے دریا میں چھلانگ لگا دی۔ تاریخ خوارزم شاہی کے مؤلف کے بقول اس مقام پر دریا کی گہرائی 180 فٹ تھی جس میں جا بجا خوفناک چٹانیں سر اٹھائے کھڑی تھیں۔ جیسے ہی سلطان کا گھوڑا دریا میں گرا ایک گرجدار آواز پیدا ہوئی۔ دریا کا پانی کئی گز اوپر اچھلا۔ لمحہ بھر کے لیے سلطان جلال الدین خوارزم لہروں میں گم ہو گئے تاہم وہ کئی بار ابھرے اور ڈوبے۔ دریا کی لہروں کا مقابلہ کرتے ہوئے دوسرے کنارے کی طرف بڑھتے ہوئے نظر آئے۔ نومبر کا یخ بستہ پانی اور چار دن کی لڑائی کی تھکان اپنی جگہ اور جلال الدین کا آہنی حوصلہ اپنی جگہ، دریا کی موجوں نے سلطان کو راستہ دے دیا اور سلطان دریا کے پار اتر گئے۔ </h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;">چنگیز خان یہ منظر بے بسی سے دیکھ رہا تھا۔ سلطان نے کنارے پر پہنچتے ہی ایک زور دار قہقہ لگایا جو اس بات کا ثبوت تھا کہ چنگیز خان دریائے آمو سے اپنے جس دشمن کا پیچھا کرتے ہوئے آیا تھا اب اس کا بال بیکا بھی نہیں کر سکتا تھا۔ دریائے سندھ نے موت کے آگے جو سرحد کھینچ دی تھی اسے عبور کرنا اب چنگیز کے بس میں نہیں تھا۔ چنگیز نے اپنے بیٹوں اوکتائی اور چغتائی کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ’بیٹا ہو تو ایسا، وہ باپ بڑا خوش قسمت ہے جس کا بیٹا اتنا بہادر ہو، اس جیسا جواں مرد دنیا میں نہ پیدا ہوا نہ پیدا ہو گا۔‘ جلال الدین خوارزم نے جس گھوڑے پر دریا عبور کیا وہ انہیں بہت محبوب ہو گیا تھا اور یہ معرکہ سندھ کے پانچ سال بعد تفلیس کی فتح تک سلطان کے پاس رہا۔ اس اعزاز کی وجہ سے اس پر سواری نہیں کی جاتی تھی۔ تاریخ دان کہتے ہیں کہ اگر سلطان صلاح الدین کی فوج میں خوارزمی سپاہی نہ ہوتے تو نہ یوروشلم فتح ہوتا نہ بیت المقدس مسلمانوں کے پاس آتا۔ اٹک بسال روڈ پر تاریخی قصبہ باغ نیلاب آج بھی خوارزم شاہ کی بہادری کا گواہ بن کر کھڑا ہے اور وہ مقام جہاں سے سلطان نے چھلانگ لگائی تھی گھوڑا ترپ کے نام سے آج بھی معروف ہے۔ خوارزم شاہ یہاں سے نکلے تو قلعہ نندنہ میں کھوکھر سردار رائے رسل کے ہاں تین سال پناہ گزین رہے۔ رائے رسل نے اپنی بیٹی کا رشتہ سلطان سے کر دیا۔</h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;">سجاد اظہر </h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;">بشکریہ انڈپینڈنٹ اردو</h2>KHAWAJA UMER FAROOQhttp://www.blogger.com/profile/11468318155300615604noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-6558324054135046872.post-84527324369410040942023-05-23T02:40:00.001-07:002023-05-23T02:40:20.943-07:00شہنشاہ اکبر کی عظیم فتوحات <div dir="ltr" style="text-align: left;" trbidi="on">
<h2 dir="rtl" style="text-align: right;">
<div class="separator" style="clear: both; text-align: center;"><a href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEhxc_1ugIfdaXmugCy7QLNLAoKYa_78pZz8ZHJmzm89KKhyuHeQbmAEdrSdx49B5acHpMd_r5rxHokIETXjTzSdE9PIoGvNwn-st7u_isd9gv4mEbdgx8kqaGnbAIgM8q3TGVC85A8dBt8wuNpKzvf-yFwdM54wpABUIwL9ZG0o6Qouerqvxbc3L7H5/s1920/King%20Akbar%203.jpg" imageanchor="1" style="margin-left: 1em; margin-right: 1em;"><img border="0" data-original-height="1286" data-original-width="1920" height="268" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEhxc_1ugIfdaXmugCy7QLNLAoKYa_78pZz8ZHJmzm89KKhyuHeQbmAEdrSdx49B5acHpMd_r5rxHokIETXjTzSdE9PIoGvNwn-st7u_isd9gv4mEbdgx8kqaGnbAIgM8q3TGVC85A8dBt8wuNpKzvf-yFwdM54wpABUIwL9ZG0o6Qouerqvxbc3L7H5/w400-h268/King%20Akbar%203.jpg" width="400" /></a></div>مغل بادشاہ شہنشاہ اکبر نے ہمسایہ ریاستوں پر حملے کر کے انہیں اپنی سلطنت میں شامل کر لیا۔ فتوحات کے بعد شہنشاہ ا کبر نے اپنی رعایا سے فیاضانہ سلوک کیا۔ گونڈوں کی ملکہ ورگاوتی کو شکست دینے اور اس کے خزانہ پر قبضہ کرنے کے بعد شہنشاہ اکبر نے چتوڑ کی طرف توجہ کی۔ جونہی اکبر اپنی فوجیں لے کر چتوڑ کی طرف روانہ ہوا، چتوڑ کا رانا ادوے سنگھ وہاں سے بھاگ نکلا۔ اس پر جمیل راٹھور نے چتوڑ کی حفاظت کا ذمہ لیا۔ شہنشاہ اکبر کی تمام توپیں چتوڑ کے قلعہ کو فتح کرنے میں ناکام رہیں۔ ایک دن اکبر نے دیکھا کہ ایک پرشکوہ انسان ان شگافوں کی مرمت کرا رہا ہے جو گولہ باری کی وجہ سے قلعہ میں پیدا ہو گئے تھے۔ اکبر نے شست لگائی، پر شکوہ انسان زمین پر تھا۔ تھوڑی دیر بعد شہر کے بعض حصوں سے آگ کے شعلے اُٹھتے دکھائی دیئے۔ </h2>
<h2 dir="rtl" style="text-align: right;">
راجہ بھگوان داس نے بتایا کہ جوہر کی رسم ادا ہو رہی ہے۔ معلوم ہوا کہ اکبر نے جس شخص کا نشانہ کیا تھا وہ جمیل راٹھور تھا۔ چتوڑ کے لئے راجپوت سپاہیوں نے بہادری سے لڑنا شروع کیا۔ مرد اور عورتیں ایک ہی صف میں حملہ آوروں کا مقابلہ کر رہی تھیں۔ آٹھ ہزار بہادر راجپوت چتوڑ کی حفاظت میں کام آتے۔ اکبر پر وہی وحشت سوار ہوئی جو کبھی سکندر یونانی کو گھیر لیتی تھی۔ اکبر کے حکم سے چتوڑ میں قتل عام کیا گیا۔ راجپوتوں کی بہادری سے اکبر اس قدر متاثر ہوا کہ اس نے جمیل اور اس کے نوجوان بیٹے کے بت بنوا کر دہلی میں نصب کرائے۔ اکبر اپنی سلطنت کو ایک سمندر سے دوسرے سمندر تک پھیلانا چاہتا تھا۔ اب اس نے مغرب کا رخ کیا۔ سمندر اور اس کی سلطنت کے درمیان گجرات حائل تھا۔</h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;"><div class="separator" style="clear: both; text-align: center;"><a href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEiLdDbWdT_PZA-2DxapCmEtf0IxWiLwrKlVx-WGMIe1isJpd0bIP5HJyEleEpRNdIi-iLTKKNe1e0Hu1ZdMSV7UWhhsSK6_BmW5fHyg_35YB1R1B6spjVgT1whxm-ARFA6MoSyJ-E_tSdhY8hnyPClwPyzCkHegppOp6hNECMx3HWLz0uXOldrk05Mi/s1280/King%20Akbar%204.jpg" imageanchor="1" style="margin-left: 1em; margin-right: 1em;"><img border="0" data-original-height="640" data-original-width="1280" height="200" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEiLdDbWdT_PZA-2DxapCmEtf0IxWiLwrKlVx-WGMIe1isJpd0bIP5HJyEleEpRNdIi-iLTKKNe1e0Hu1ZdMSV7UWhhsSK6_BmW5fHyg_35YB1R1B6spjVgT1whxm-ARFA6MoSyJ-E_tSdhY8hnyPClwPyzCkHegppOp6hNECMx3HWLz0uXOldrk05Mi/w400-h200/King%20Akbar%204.jpg" width="400" /></a></div></h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;">گجرات کی راجد ھانی احمد آباد تھی۔ اب اکبر گجرات کی طرف روانہ ہوا۔ گجرات پر قبضہ کرنے میں اُسے زیادہ مشکلات کا سامنا نہیں کرتا پڑا۔ اکبر نے پہلی مرتبہ اس سمندر کو دیکھا جو ہندوستان اور یورپ کو ملاتا ہے۔ اس کے ذہن میں مغل بحریہ بنانے کا خیال نہ آیا۔ اکبر سمندر کی موجوں کو گن رہا تھا کہ ابراہیم حسین میرزا نے سرنال میں بغاوت کر دی۔ اس بغاوت کو دبانے اور میرزا کو شکست دینے کے بعد اکبر نے سورت کی بندر گاہ کا محاصرہ کیا۔ جب اُسے معلوم ہوا کہ سورت کی مدد پرتگیزی کر رہے ہیں تو اس نے پرتگیزوں سے صلح کے لئے بات چیت کی۔ پرتگیزی وائسرائے نے انطونیو کو اکبر سے تصفیہ کے لئے بھیجا۔ سورت نے ہتھیار ڈال دیئے۔ پرتگیزوں سے اکبر نے اپنا تعلق اس طرح قائم کیا۔ وہ پرتگیزوں سے ان کے مذہب اور ان کی معاشرت کے متعلق معلومات حاصل کرنا چاہتا تھا۔ اکبر آگرہ پہنچا۔ گجرات میں بغاوت ہو گئی۔</h2>
<h2 dir="rtl" style="text-align: right;">
اکبر پھر گجرات کی طرف روانہ ہوا۔ دوسری مہم میں اکبر نے فوجی قابلیت اور بہادری کا ثبوت دیا۔ ایک ایک دن میں پچاس پچاس میل کا سفر کیا۔ آگرہ سے احمد آباد میں وہ گیارہ دنوں میں پہنچ گیا۔ چھ سو میل ! اکبر کے ہمراہ صرف تین ہزار سپاہی تھے۔ محمد حسین میرزا بیس ہزار سپاہیوں سمیت اکبر کے خلاف اٹھا۔ جونہی اُسے شاہی فوجوں کی آمد کا پتہ چلا تو میرزا چلایا’ ہمارے جاسوسوں نے اطلاع دی ہے کہ اکبر چودہ دن پہلے فتح پور سیکری میں تھا۔‘ انہیں اکبر کی آمد کا یقین نہیں تھا۔ اکبر نے ایک شدید حملہ کیا۔ میرزا کی فوج کو شکست ہوئی۔ بنگال میں شہزادہ داؤد نے بغاوت کر دی۔ بہار پر افغان سرداروں کا قبضہ تھا۔ دائود نے اپنی طاقت پر بھروسہ کرتے ہوئے اکبر سے لڑنے کی تیاری کر لی۔ اکبر اس وقت گجرات میں تھا۔ </h2>
<h2 dir="rtl" style="text-align: right;">
اس نے بوڑھے جرنیل منعم خاں کو بغاوت فرو کرنے کے لئے بھیجا۔ لیکن اسے ناکامی ہوئی۔ اب اکبر بنگال کی طرف روانہ ہوا۔ اکبر کی ساری گزشتہ مہموں سے یہ مہم نرالی تھی۔ کیونکہ اس مہم میں گنگا کو ٹرانسپورٹ کے لئے استعمال کرنا تھا۔ شہنشاہ نے اپنی فوج کا ایک حصہ خشکی کے راستے بھیج دیا اور باقی فوج کو ایک بیڑے پر سوار کیا۔ یہ بیڑہ بہت زیادہ شان وشوکت رکھتا تھا۔ بعض کشتیوں کو باغوں میں تبدیل کر دیا گیا تھا۔ دائود کے خواب و خیال میں بھی یہ بات نہیں آسکتی تھی کہ اکبر برسات میں اتنی بڑی مہم کو جاری رکھ سکے گا۔ اکبر نے پٹنہ پر قبضہ کر لیا۔ پٹنہ سے واپسی پر شہنشاہ کے ذہن میں عبادت خانہ بنا نے کا خیال پیدا ہوا۔ جہاں وہ مختلف فرقوں کے مسلمان علماء سے تبادلہ خیال کر سکے۔ چنانچہ اس نے شیخ سلیم چشتی کے مقبرہ کے قریب ایک شاندار عمارت بنوائی…بہار اور بنگال میں پھر بغاوت ہو گئی۔ </h2>
<h2 dir="rtl" style="text-align: right;">
بعض درباریوں نے اکبر کے بھائی مرزا محمد حکیم، حاکم کا بل کو دعوت دی کہ وہ ہندوستان پر حملہ کر کے اکبر کی جگہ خود بادشاہ بن جائے۔ مرزا محمد حکیم کو اکبر نے شکست دی۔ شہنشاہ اکبر نے پھر سے فتوحات کی طرف توجہ کی۔ کشمیر اور سندھ کی فتح کے بعد اس نے اڑیسہ، بلوچستان اور قندھار کو اپنی سلطنت میں شامل کیا۔ دکن ابھی باقی تھا۔ شہنشاہ کا خیال تھا کہ دکن کی ریاستیں اس کی فتوحات سے مرعوب ہو کر اس کی قیادت کو مان لیں گی۔ اکبر نے عبدالرحیم خان خانان اور شہزادہ مراد کو احمد نگر فتح کرنے کے لئے بھیجا۔ احمد نگر کی ملکہ چاند بی بی نے ڈٹ کر مقابلہ کیا۔ مغل اُسے شکست نہ دے سکے۔ چاند بی بی اور اکبر میں صلح ہو گئی۔ اب اکبر خود دکن گیا۔ احمد نگر کو فتح کرنے کے بعد اس نے خاندیس کو فتح کرنا چاہا۔ </h2>
<h2 dir="rtl" style="text-align: right;">
ایسر گڑھ کے قلعہ کا محاصر ہ کر لیا گیا لیکن بے سود۔ آخررشوتوں کو کام میں لاکر اکبر نے اس قلعہ پر قبضہ کر لیا۔ دکن کی مہم پر روانہ ہوتے وقت اکبر نے سلیم کو آگرہ میں انتظام سلطنت کے لئے چھوڑ دیا تھا۔ سلیم نے بغاوت کے لئے اچھا موقع پایا۔ الہٰ آباد پہنچ کر اس نے اپنی بادشاہت کا اعلان کر دیا۔ بہت بڑی فوج جمع کرنے کے بعد وہ آگرہ کی طرف بڑھا۔ اکبر دکن سے واپس آچکا تھا۔ اس نے شاہی قاصدوں کو فرمان دے کر سلیم کے ہاں بھیجا۔ اس فرمان کی رو سے شہنشاہ اکبر نے اپنے بیٹے سلیم کو بنگال اور بہار کا گورنر مقرر کیا تھا۔ لیکن سلیم نے ایک نہ سنی۔۔۔آخر کار کسی نہ کسی طرح سلیم کو ترغیب دلا کر آگرہ میں پہنچا دیا۔ اکبر کی والدہ سلیم کا استقبال کرنے کے لئے آگرہ سے کئی میل دور گئی۔ اس کی کوششوں سے باپ بیٹے میں ملاقات ہوئی۔ سلیم نے معافی مانگی۔ اکبر نے اپنا عمامہ سلیم کے سر پر رکھ دیا۔</h2>
<h2 dir="rtl" style="text-align: right;">
باری علیگ</h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;">بشکریہ دنیا نیوز</h2>
</div>
KHAWAJA UMER FAROOQhttp://www.blogger.com/profile/11468318155300615604noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-6558324054135046872.post-59177791925617291082021-06-16T00:03:00.001-07:002021-07-21T06:44:42.140-07:00بیت المقدس، پانچ ہزار برس قدیم شہر<h2 dir="rtl" style="text-align: right;"> <div class="separator" style="clear: both; text-align: center;"><a href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEjnMbcS89t8Geu_GceujVz_dA6tAdFXxS2CghBhQmELwznrqiHsmWH0YUa3Uj1YSPtDqBZT4Gsg4ZtC9Wp8nJApG3ENTC9VeCQ7ce77VenUme7hqog0OAzwIrsrX6Elbpzbzsm54kGJQw8/s1920/Baitul+Maqdis+2.jpg" imageanchor="1" style="margin-left: 1em; margin-right: 1em;"><img border="0" data-original-height="1280" data-original-width="1920" height="266" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEjnMbcS89t8Geu_GceujVz_dA6tAdFXxS2CghBhQmELwznrqiHsmWH0YUa3Uj1YSPtDqBZT4Gsg4ZtC9Wp8nJApG3ENTC9VeCQ7ce77VenUme7hqog0OAzwIrsrX6Elbpzbzsm54kGJQw8/w400-h266/Baitul+Maqdis+2.jpg?imgmax=1600" width="400" /></a></div>یروشلم دنیا کا وہ واحد شہر ہے جو بیک وقت تین بڑے مذاہب کا مقدس شہر مانا جاتا ہے۔ مسلمان اسے نہایت عزت اور تکریم کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ مسلمانوں کا عقیدہ ہے کہ یہی قبل اول تھا اور پیغمبر اسلام ﷺ نے معراج پر جانے سے پہلے اسی شہر میں واقع مسجد اقصیٰ میں تمام نبیوں کی امامت فرمائی تھی۔ یہیں سے آپ ﷺ معراج پر تشریف لے گئے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ مسلمان اور مسیحی ایک ہزار سال تک اس شہر پر اپنا قبضہ حاصل کرنے کے لئے برسر پیکار رہے ہیں۔ </h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;">یروشلم کے لفظی معنی: تاریخی روایات کے مطابق لفظ ''یروشلم‘‘ دو عبرانی الفاظ '' یرو ‘‘ اور '' شیلم ‘‘سے ملکر بنا ہے جس کے معنی ''امن کا ورثہ ‘‘(Inheritance Of Peace) کے ہیں۔ یہودیوں کے مطابق حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اسے جریح Jereh کا نام دیا جس میں بادشاہ شالم نے 2008 قبل مسیح میں ''شیلم ‘‘ کا اضافہ کر دیا۔ مسلمانوں نے اس شہر کا نام القدس یعنی پاکیزہ شہر رکھا جس نے بیت المقدس کے نام سے شہرت پائی ۔</h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;">یروشلم کی تاریخ: ماہرین آثار قدیمہ کہتے ہیں کہ 5000 قبل مسیح میں بھی یروشلم میں انسانی آبادی کے آثار ملے ہیں۔ اس لحاظ سے یہ دنیا کے قدیم ترین شہروں میں سے ایک ہے۔ تاریخ کی کتب میں حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت لوط علیہ السلام کا ذکر ملتا ہے جنہوں نے بیت المقدس کی طرف ہجرت کی تھی۔ پھر حضرت یعقوب علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق مسجد بیت المقدس (مسجد اقصیٰ) کی بنیاد رکھی۔ 1000 قبل مسیح میں حضرت داؤد علیہ السلام نے شہر کو فتح کر کے اپنی حکومت کا دارلخلافہ بنا لیا۔ جبکہ 960 قبل مسیح میں حضرت داؤد علیہ السلام کے بیٹے حضرت سلیمان علیہ السلام نے ہیکل سلیمانی تعمیر کرایا۔ 589 قبل مسیح میں شاہ بابل ( قدیم عراق) بخت نصر نے بیت المقدس شہر کو مسمار کر کے یہودیوں کو ذلت آمیز طریقے سے بے دخل کر دیا۔ وہ ایک لاکھ یہودیوں کو غلام بنا کر اپنے ساتھ عراق لے گیا ۔ طویل عرصے تک یرو شلم ویرانی کی تصویر بنا رہا ۔ <div class="separator" style="clear: both; text-align: center;"><a href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEjxw6gv-lOPhFzWYUMr0YYvjgpikWEihUfDryJ_mqa17iPHxP3yLCi5ZYLn6OqrW4jhEJIT1zVYXMn3NCfQLVgd7pTgMWtTU0BR4k-a8Ym3qlCqcS9daxOre31Mdez2isqP7eJg47GwUUM/s1920/Baitul+Maqdis.jpg" imageanchor="1" style="margin-left: 1em; margin-right: 1em;"><img border="0" data-original-height="739" data-original-width="1920" height="246" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEjxw6gv-lOPhFzWYUMr0YYvjgpikWEihUfDryJ_mqa17iPHxP3yLCi5ZYLn6OqrW4jhEJIT1zVYXMn3NCfQLVgd7pTgMWtTU0BR4k-a8Ym3qlCqcS9daxOre31Mdez2isqP7eJg47GwUUM/w640-h246/Baitul+Maqdis.jpg" width="640" /></a></div></h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;">ایک سو سال بعد بیت المقدس ایک پر رونق شہر بن چکا تھا۔ 539 قبل مسیح میں بخت نصر کے بعد فارس کے شہنشاہ روش کبیر (سائرس اعظم) نے بابل پر تابڑ توڑ حملوں کے بعد بابل اور یروشلم پر قبضہ کر لیا۔ اس نے یہودیوں کو واپس آنے کی اجازت دے دی۔ ہیرود اعظم کے زمانے میں یہودیوں نے بیت المقدس اور ہیکل سلیمانی دوبارہ تعمیر کر لیا۔ لیکن 70 عیسوی میں رومی جنرل ٹا ئٹس نے ہیکل سلیمانی کو مسمار اور شہر یروشلم کو تباہ و برباد کر دیا۔ چوتھی صدی عیسوی میں رومیوں نے مسیحیت قبول کر لی اور بیت المقدس میں گرجا گھر تعمیر کرا نا شروع کر دئیے۔ جب نبی کریم ﷺ معراج پر تشریف لے گئے تو 2 ہجری بمطابق 624 عیسوی تک بیت المقدس پر مسلمانوں ہی کا قبضہ تھا۔ حکم الہٰی سے کعبہ (مکہ) کو قبلہ قرار دیا گیا۔ 639 عیسوی میں عہد فاروقی میں عیسائیوں سے ایک معاہدے کے تحت بیت المقدس پر مسلمانوں کا قبضہ ہو گیا۔ 691 عیسوی میں اموی حکمران نے قبۃ الصخرا (ڈوم آف دا راک ) تعمیر کرایا۔ 1099 عیسوی میں پہلی صلیبی جنگ میں صلیبیوں نے بیت المقدس پرقبضہ کر لیا جس میں 70 ہزار کے لگ بھگ مسلمانوں نے جام شہادت نوش کیا ۔</h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;">سنہ 1187 میں صلاح الدین ایوبی نے صلیبیوں کو شکست دے کر شہر سے نکال دیا۔ 1229 میں فریڈرک دوم نے دوبارہ مسلمانوں سے یرو شلم حاصل کر لیا۔ لیکن تھوڑے ہی عرصے بعد 1244 عیسوی میں مسلمان دوبارہ یروشلم کو حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئے ۔ 1517عیسوی میں سلطان سلیم اول نے یروشلم کو عثمانی سلطنت کا حصہ بنا ڈالا۔ مسیحی اپنی شکست کو بھول نہ سکے تھے لہٰذا 1917 میں انگریز جنرل ایلن بی عثمانیوں کو شکست دینے میں کامیاب ہو گیا۔ جس کے بعد انگریز فوجوں نے شہر کا قبضہ حاصل کر لیا۔ تاریخ کی کتابوں میں لکھا ہے کہ باب الخلیل کے راستے شہر میں داخل ہوتے وقت یروشلم کے تقدس کا احترام کرتے ہوئے وہ پیدل شہر میں داخل ہوا۔1947 ء میں اقوام متحدہ نے یروشلم اور فلسطین کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا ، مشرقی حصہ فلسطینیوں اور مغربی حصہ یہودیوں کے حوالے کر دیا گیا۔ پھر دو عشروں تک یروشلم کا مشرقی حصہ اردن کے اقتدار میں رہا لیکن 1967 ء کی جنگ میں اسرائیل نے اس پر قبضہ کر لیا۔ بین الاقوامی برادری نے آج تک یہ قبضہ جائز تسلیم نہیں کیا۔ اس مقدس شہر یروشلم نے بھی کیا قسمت پائی ہے۔ یہ بار بار تخت و تاراج ہوا، آبادیاں بار بار زبردستی جلا وطن ہوتی رہیں، اس کی گلیاں ان گنت مرتبہ میدان جنگ بنیں اور خون کے ندیوں کا منظر پیش کرتی رہیں ۔</h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;">خاور نیازی</h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;">بشکریہ دنیا نیوز</h2>KHAWAJA UMER FAROOQhttp://www.blogger.com/profile/11468318155300615604noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-6558324054135046872.post-81061392312739390652021-06-15T23:41:00.002-07:002021-10-19T05:00:49.340-07:00چی گویرا : امریکہ کو ناکوں چنے چبوانے والے گوریلا جنگجو<h2 dir="rtl" style="text-align: right;"><div class="separator" style="clear: both; text-align: center;"><a href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEhlSeKCrIg3H-CR2dMLEQctbpzeb1AIFvqnwxJ-UHZmUGXnsLuqMk9mYO34kPHoQsvjWgBT9Aa2_WwI-p-pArUSSuCmJorRhyZN8w1fBEmMMP9aUfHzkw4kAnFL__y1wC1wkOlF3JeBSHI/s2048/Che+Guevara.jpg" imageanchor="1" style="margin-left: 1em; margin-right: 1em;"><img border="0" data-original-height="1365" data-original-width="2048" height="266" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEhlSeKCrIg3H-CR2dMLEQctbpzeb1AIFvqnwxJ-UHZmUGXnsLuqMk9mYO34kPHoQsvjWgBT9Aa2_WwI-p-pArUSSuCmJorRhyZN8w1fBEmMMP9aUfHzkw4kAnFL__y1wC1wkOlF3JeBSHI/w400-h266/Che+Guevara.jpg?imgmax=1600" width="400" /></a></div>’موت آنے تک جاری رہنے والی جدوجہد کی کوئی حد نہیں ہے۔ دنیا کے کسی بھی گوشے میں جو کچھ بھی ہو رہا ہے ہم اس سے لاتعلق نہیں رہ سکتے۔ سامراج کے خلاف کسی ایک ملک کی فتح ہماری فتح اور کسی ایک ملک کی شکست ہماری شکست ہے۔' یہ بات چی گویرا نے موت سے دو برس قبل الجزائر میں ایفرو ایشین سالیڈیرٹی سمینار میں اپنا آخری بین الاقوامی خطاب کرتے ہوئے کہی تھی۔ چی گویرا ارجنٹینا میں پیدا ہوئے اور وہ کیوبا کے انقلابی رہنما تھے جو بائیں بازو کے حامیوں کے ہیرو بن گئے۔ البرٹو کوردا کی جانب سے لی گئی ان کی ایک تصویر 20 ویں صدی کی ایک معروف علامت بنی۔ ارنسٹو گویرا ڈی لا سرنا جو چی گویرا کے نام سے مقبول ہوئے، 14 جون سنہ 1928 کو ارجنٹینا کے علاقے روساریو کے ایک متوسط گھرانے میں پیدا ہوئے۔ انھوں نے بیونس آئیرز یونیوسٹی سے طب کی تعلیم حاصل کی۔ اس عرصے میں انھیں جنوبی اور وسطی امریکہ میں بہت زیادہ سفر کرنے کا موقع ملا۔</h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;">انھوں نے بڑے پیمانے پر پھیلی غربت اور ظلم و جبر کا مشاہدہ کیا اور مارکسزم میں دلچسپی نے انھیں اس بات پر قائل کیا کہ جنوبی اور وسطی امریکہ کے مسائل کا واحد حل مسلح انقلاب ہے۔ وسعت اللہ خان سنہ 2007 میں بی بی سی اردو کے لیے لکھی اپنی تحریر میں چی گویرا کو کچھ اس طرح یاد کرتے ہیں: 'چی گویرا نے اپنی مختصر سی زندگی میں کیا نہیں کیا تھا۔ رگبی اور شطرنج کا کھلاڑی، دمے کا مریض، ڈاکٹر، فوٹوگرافر، موٹر بائیک رائیڈر، شاعر، گوریلا کمانڈر، باپ، شوہر، ڈائری نویس، ادیب اور انقلابی۔۔۔‘ 'وہ آدمی کے بھیس میں چلتی پھرتی تکلیف تھا۔ ایسا عبداللہ جو کسی بھی شادی کو دیوانہ ہونے کے لیے بیگانا نہیں سمجھتا تھا۔ اس کے لیے پورا لاطینی امریکہ اور پھر پوری دنیا ایک ہی ملک تھا۔‘ سنہ 1954 میں وہ میکسیکو گئے اور آنے والے برس میں وہ کیوبا کے انقلابی رہنما فیدل کاسترو سے ملے۔</h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;"><div class="separator" style="clear: both; text-align: center;"><a href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEi_Xsbj8PiKZifwD7JUY7H74MTrHL3lb15Ok6K4-CfcioJ7QC06N8dc5aRnfgzp2NfednjkXhgdYZD_xYThJFCcPMq2WWY6vkEGqeNq7i0gHV505bb8VPeA5sDokvwAgdwuxBC40_mCkFI/s2048/Che+Guevara+2.jpg" imageanchor="1" style="margin-left: 1em; margin-right: 1em;"><img border="0" data-original-height="1538" data-original-width="2048" height="300" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEi_Xsbj8PiKZifwD7JUY7H74MTrHL3lb15Ok6K4-CfcioJ7QC06N8dc5aRnfgzp2NfednjkXhgdYZD_xYThJFCcPMq2WWY6vkEGqeNq7i0gHV505bb8VPeA5sDokvwAgdwuxBC40_mCkFI/w400-h300/Che+Guevara+2.jpg" width="400" /></a></div></h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;">چی گویرا نے '26 جولائی کی تحریک' میں کاسترو کے ساتھ شمولیت اختیار کی اور کیوبا کے ڈکٹیٹر بتیستا کے خلاف گوریلا جنگ میں اہم کردار ادا کیا۔ کاسترو نے سنہ 1959 میں بتیستا کا اقتدار ختم کیا اور کیوبا میں اقتدار سنبھال لیا۔ سنہ 1959 سے 1961 کے دوران چی گویرا کیوبا کے نیشنل بینک کے صدر تھے اور پھر وزیر برائے صنعت رہے۔ اس عہدے پر انھوں نے کیوبا کے سفارتکار کی حیثیت سے دنیا بھر میں سفر کیا۔ ملک کے اندر انھوں نے ایسے منصوبے بنائے جن کے ذریعے زمینوں کی دوبارہ سے تقسیم کی جاتی اور انھوں نے صنعتوں کے کے لیے منصوبہ بندی کی۔ امریکہ کے سخت ناقد کی حیثیت سے انھوں نے کاسترو کی حکومت کو سوویت یونین سے اتحاد میں معاونت فراہم کی۔ امریکہ کی جانب سے تجارتی پابندیوں اور ناکام اصلاحات کے بعد کیوبا کی معیشت بدحال ہوئی۔</h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;">اس مشکل وقت کے دوران چی گویرا نے کیوبا کے دیگر رہنماؤں کے ساتھ لڑنا شروع کر دیا۔ بعدازاں انھوں نے اس خواہش کا اظہار کیا کہ وہ دنیا کے ترقی پذیر ممالک کے دیگر حصوں میں انقلاب پھیلانا چاہتے ہیں اور پھر سنہ 1965 میں کاسترو نے اعلان کیا کہ چی گویرا نے کیوبا چھوڑ دیا ہے۔ کتاب چی گویرا کی ڈائری میں ان کی جانب سے کاسترو کو لکھے گئے دو خطوط بھی ہیں جن میں سے ایک میں وہ لکھتے ہیں کہ: ’مجھے لگتا ہے کہ میں نے اپنے فرض کا وہ حصہ ادا کر دیا ہے جس نے مجھے کیوبا کی سرزمین اور انقلاب سے منسلک رکھا۔‘ ’سو میں تم سے، ساتھیوں سے اور تمھارے عوام سے جو میرے ہو چکے ہیں، رخصت ہوتا ہوں۔ کوئی قانونی بندھن مجھے اب کیوبا کے ساتھ نہیں باندھے ہے، جو بندھن ہیں وہ ایک اور نوعیت کے ہیں ایسے بندھن جنھیں اپنی مرضی سے توڑا نہیں جا سکتا۔‘</h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;">جاتے جاتے اپنے بچوں کے نام خط میں چی نے لکھا کہ: ’تمھارا باپ ایک ایسا آدمی تھا جس نے جو سوچا اُس پر عمل کیا۔ یقین رکھو وہ اپنے نظریات سے مکمل طور پر وفادار رہا۔ یاد رکھو اگر کوئی چیز اہم ہے تو انقلاب، اس کے مقابلے میں ہماری ذات، ہمارا وجود کوئی اہمیت نہیں رکھتا۔‘ چی گویرا نے کئی ماہ براعظم افریقہ، خاص طور پر کانگو میں گزارے۔ انھوں نے گوریلا جنگ کے لیے باغی فوج کو تربیت دینے کی کوشش کی۔ لیکن ان کی کوششیں رائیگاں گئیں اور سنہ 1966 میں وہ خفیہ طور پر کیوبا لوٹ گئے۔ کیوبا سے انھوں نے بولیویا جانے کی ٹھانی تا کہ وہ رینی بارنتوس اورتونو کی حکومت کے خلاف باغی فوجوں کی قیادت کر سکیں۔ امریکی مدد سے بولیویئن فوج نے انھیں اور ان کے باقی ماندہ جنگجوؤں کو گرفتار کیا۔</h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;">نو اکتوبر سنہ 1967 کو بویلیا کے گاؤں لاہیگورا میں چی گویرا کو خفیہ طور پر سپرد خاک کیا گیا۔ سنہ 1997 میں ان کی باقیات کا پتا چلا جنھیں نکال کر کیوبا کو لوٹایا گیا۔ کتاب چی گویرا کی ڈائری میں ایک مضمون فیدل کاسترو کا بھی ہے جس میں وہ لکھتے ہیں: ’یہ ثابت ہو چکا ہے کہ چی لڑتے ہوئے مارا گیا۔ اس کی ایم ٹو رائفل کی نالی ایک گولے سے بالکل بے کار ہو گئی تھی۔ اس کے پستول میں گولیاں نہیں تھیں۔ اس بے بسی میں اسے زندہ گرفتار کر لیا گیا۔ ’اس کے ٹانگوں میں اتنے زخم تھے کہ وہ چل بھی نہیں سکتا تھا۔ اسی حالت میں اسے ہگوراز لے جایا گیا۔ فوجی افسروں نے اُسے قتل کرنے کا فیصلہ کیا۔ ایک سکول میں اس فیصلے پر عمل درآمد کی تفصیلات سب کو معلوم ہیں۔‘</h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;">بشکریہ بی بی سی اردو</h2><br />KHAWAJA UMER FAROOQhttp://www.blogger.com/profile/11468318155300615604noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-6558324054135046872.post-22427006235746351712021-06-09T05:02:00.006-07:002021-10-19T06:12:09.648-07:00 معرکۂ عین جالوت کا فاتح رکن الدین بیبرس جس سے منگول بھی ڈرتے تھے <h2 dir="rtl" style="text-align: right;"> <div class="separator" style="clear: both; text-align: center;"><a href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEhthOv7ciRHzmhaECCYmqGMRsKWRYOM9p2HloHRJc-zvTbp_clEUfljIhHAHNJAEUzciN2BYT-UYXAb4ZOijNdQ2jPOuSJ0cM5kqETd6y6fzuKIf3EUq5CJIhW-VSHlWi9wzd3XUwmhui4/s2048/Rukun+Uddin+Baibars+3.jpg" style="margin-left: 1em; margin-right: 1em;"><img border="0" data-original-height="1463" data-original-width="2048" height="286" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEhthOv7ciRHzmhaECCYmqGMRsKWRYOM9p2HloHRJc-zvTbp_clEUfljIhHAHNJAEUzciN2BYT-UYXAb4ZOijNdQ2jPOuSJ0cM5kqETd6y6fzuKIf3EUq5CJIhW-VSHlWi9wzd3XUwmhui4/w400-h286/Rukun+Uddin+Baibars+3.jpg?imgmax=1600" width="400" /></a></div>آج ہم آپ کو ایک ایسے غلام کی کہانی سنائیں گے جو سلطانوں کی طرح مشہور ہوا اور جس نے اپنی بہادری سے نہ صرف حکومت حاصل کی بلکہ کئی ظالموں کو منطقی انجام تک پہنچایا فتوحات کی ایسی مثالیں قائم کیں کہ بڑے بڑے جنگجو اس کے نام سے تھر تھر کانپتے تھے، تاریخ منگولوں کے ظلم سے بھری پڑی ہے لیکن اس ''غلام ‘‘ نے منگولوں کی ایسی کمر توڑی کہ وہ دوبارہ سر نہ اٹھا سکے۔ یہ غلام ایک عظیم فاتح، دلیر جنگجو اور عالم اسلام کا ایسا ہیرو بنا جس کو تاریخ کبھی بھلا نہ پائے گی۔ جی ہاں ! ہم بات کر رہے ہیں سلطان رکن الدین بیبرس کی جو 19 جولائی 1223ء کو دشتِ قپچاق میں ایک خانہ بدوش قبیلے میں پیدا ہوئے، قپچاق ترک عہد وسطیٰ میں یورپ و ایشیا ء کے درمیانی علاقے میں آباد تھے بیبرس ہلاکو خان اور غیاث الدین بلبن کا ہم عصر تھا اور کہا جاتا ہے کہ بیبرس کو غلام بنا کر فروخت کیا گیا تھا پھر وہ اپنے زورِ بازو سے سلطانِ مصر و شام بنا۔ </h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;">الملک الظاہر رکن الدین بیبرس کا اصل نام البند قداری، لقب ابولفتوح تھا لیکن بیبرس کے نام سے شہرت پائی ۔ بیبرس سیف الدین قطز کا جانشین اور مصری افواج کے ان کمانڈروں میں سے ایک تھا جس نے فرانس کے بادشاہ لوئس نہم کو ساتویں صلیبی جنگ میں شکست دی۔ رکن الدین بیبرس (620ھ-676ھ) کے 3 کارنامے تاریخ میں ہمیشہ یاد رکھے جائیں گے۔ پہلا کارنامہ یہ تھا کہ بیبرس نے سلطان سیف الدین قطز کے ساتھ مل کر منگولوں کو معرکۂ عین جالوت میں عبرتناک شکست دی۔ یہ مشہور جنگ 25 رمضان 658ھ کو لڑی گئی، اس جنگ میں منگولوں کا وہ حال کیا کہ اسکے بعد وہ دوبارہ سر اٹھانے کے قابل نہ رہے اس طرح حجازِ مقدس اور مصر منگولوں کے ظلم سے ہمیشہ کیلئے محفوظ ہو گئے۔ عین جالوت (فلسطین میں) وہی جگہ ہے جہاں طالوت کے مختصر لشکر نے جالوت کے لشکرِ جرار کو شکست دی تھی۔</h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;"><div class="separator" style="clear: both; text-align: center;"><a href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEiFXm_K0xD_QlmqRQ9nRRJiBhFGGprvGYiY65YfRJDzRRhas-Z8oFCeRoBSwVXWJ4EhokPcNK_rRe1GhGRpb_DEvqCLhHNRcp5fjOiUA62MJkoZniFgNBVzsGepPhoC06b0YzeZwgydBkI/s2048/Rukun+Uddin+Baibars+2.jpg" style="margin-left: 1em; margin-right: 1em;"><img border="0" data-original-height="1353" data-original-width="2048" height="264" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEiFXm_K0xD_QlmqRQ9nRRJiBhFGGprvGYiY65YfRJDzRRhas-Z8oFCeRoBSwVXWJ4EhokPcNK_rRe1GhGRpb_DEvqCLhHNRcp5fjOiUA62MJkoZniFgNBVzsGepPhoC06b0YzeZwgydBkI/w400-h264/Rukun+Uddin+Baibars+2.jpg" width="400" /></a></div></h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;">یہ سلطان رکن الدین بیبرس کا دوسرا شاندار کارنامہ نہیں تو اور کیا ہے کہ اس نے تقریبا ًپونے دو صدی تک چلی صلیبی جنگوں کا خاتمہ کیا اور صلیبیوں کو ایسی عبرتناک شکست دی کہ پھر وہ دوبارہ حملہ کرنے کے قابل نہ رہے۔ بیبرس کا تیسرا کارنامہ یہ تھا کہ 659ھ میں مصر میں رسمی سہی مگر خلافتِ عباسی دوبارہ قائم کی جبکہ مغلوں نے بغداد کو تہس نہس کر کے خلافتِ عباسی کا بالکل خاتمہ کر دیا تھا۔ بغداد کو تباہ کرنے کے بعد جب ہلاکو خان کی فوجیں شام کی طرف بڑھیں تو بیبرس اور ایک مملوک سردار سیف الدین قطز نے مل کر عین جالوت کے مقام پر ان کو فیصلہ کن شکست دی اور منگول افواج کو نکال باہر کیا۔ بیبرس کا یہ بہت بڑا کارنامہ ہے کہ اس نے مصر و شام کو منگولوں کی تباہ کاریوں سے بچایا۔ اس نے مصری سلطنت کی شمالی سرحد ایشیائے کوچک کے وسطی علاقوں تک پہنچا دی۔ بیبرس کا ایک اور بڑا کارنامہ شام کے ساحل پر قابض یورپی حکومتوں کا زور توڑنا تھا۔ </h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;">یہ حکومتیں پہلی صلیبی جنگ کے زمانے سے شام کے ساحلی شہروں پر قابض تھیں۔ نور الدین زنگی اور صلاح الدین ایوبی نے اگرچہ اندرون ملک اور فلسطین سے صلیبیوں کو نکال دیا تھا لیکن ساحلی شہروں پر ان کا اقتدار عرصے تک قائم رہا۔ ان کو بحری راستے سے یورپ سے معاونت میسر رہتی تھی۔ بیبرس نے عین جالوت میں منگولوں کے ساتھ اتحاد کرنے کی کوشش کرنے پر 1268ء میں مسیحی سلطنت انطاکیہ کا خاتمہ کیا۔ انطاکیہ کی سلطنت کا خاتمہ 1271ء میں نویں صلیبی جنگ کا باعث بنا جس کی قیادت انگلستان کے شاہ ایڈورڈ نے کی مگر وہ بیبرس سے کوئی بھی علاقہ چھیننے میں ناکام رہا۔ بیبرس نے اپنی سلطنت کو جنوب میں سوڈان کی طرف بھی وسعت دی۔ اپنی ان فتوحات اور کارناموں کی وجہ سے بیبرس کا نام مصر و شام میں صلاح الدین ایوبی کی طرح مشہور ہوا۔</h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;">بیبرس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ بھیس بدلنے کا شوقین تھا۔ کبھی وہ گداگر کا روپ دھارتا اور کبھی مہمان بن کر دسترخوان پر اکیلا مزے اڑاتا دکھائی دیتا، بلا کا حاضر دماغ تھا۔ فطری طور پر جنگجو تھا اسکی عسکری صلاحیتیں دشت و صحرا میں پروان چڑھیں۔ اسے دمشق میں تقریباً 500 روپے میں فروخت کیا گیا وہ بحری مملوکوں کے جتھوں میں بطور تیر انداز شامل ہوا اور بالآخر انکا سردار بن گیا۔ وہ اکیلا خاقان اعظم کی یلغار کے سامنے حائل ہوا اور منگولوں کو تہس نہس کر دیا اسکے جوابی حملے نے فرانسیسی بہادروں کی کمر توڑ کر رکھ دی تھی بلا کا خوش طبع انسان تھا گھوڑے پر سوار ہو کر اکیلا نکل جاتا تو دوسرے دن فلسطین میں نمودار ہوتا اور چوتھے دن صحرائے عرب میں ملتا ۔ بڑا حوصلہ مند تھا ایک ایک دن میں میلوں کی مسافت طے کر لیتا۔ </h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;">جب سلطان بنا تو اس کے مشیروں اور وزیروں کو بھی اسکے عزائم کا علم نہ ہوتا ہر شخص کو یہی خیال رہتا ممکن ہے سلطان اسکے قریب بیٹھا اسکی باتیں سن رہا ہو ، لوگ اسکے کارنامے سن کر خوش ہوتے لیکن اسکے تقرب سے گھبراتے۔ بیان کیا جاتا ہے کہ ایک دن بیبرس نے ایک تاتاری سپاہی کا بھیس بدلا اور تن تنہا شمال کی طرف غائب ہو گیا کئی دن سفر کرنے کے بعد وہ تاتاریوں کے علاقے میں داخل ہوا اور جگہ جگہ گھوم پھر کر حالات کا جائزہ لینے لگا ۔ انگریز مصنف ہیر لڈیم اس کے بارے میں لکھتا ہے کہ مختلف زبانوں میں مہارت رکھنے کی وجہ سے وہ ہر قسم کے لوگوں میں گھل مل جاتا اسلئے اس پر کسی کو شبہ نہ ہوا ایک دن اس نے تاتاری علاقے کے کسی نانبائی کی دکان پر کھانا کھایا اور ایک برتن میں اپنی شاہی انگھوٹی اتار کر رکھ دی پھر اپنے علاقے میں واپس آگیا اور وہاں سے تاتاری فرمانروا کو خط لکھا۔</h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;">''میں تمہاری مملکت کے حالات کا معائنہ کرنے کیلئے فلاں جگہ گیا تھا نانبائی کی دکان پر انگھوٹی بھول آیا ہوں مہربانی فرما کر وہ انگھوٹی مجھے بھجوا دو کیونکہ وہ مجھے بہت پسند ہے۔‘‘ قاہرہ کے بازاروں میں لوگ یہ قصہ سن کر قہقہے لگاتے تھے۔ ایک دفعہ سلطان بیبرس عیسائی زائر کا بھیس بدل کر صلیبیوں کے مقبوضہ علاقوں میں داخل ہوا اور کئی ہفتوں تک انکے فوجی انتظامات کا جائزہ لیتا رہا کہا جاتا ہے کہ وہ تقریباً 20 ایسے قلعوں کو دیکھنے میں کامیاب ہوا جو عیسائیوں کی قوت کا مرکز تھے ایک دن اس نے قاصد کا بھیس بدلا اور ایک ہرن کا شکار لے کر سیدھا انطاکیہ کے حاکم بوہمنڈ کے دربار جا پہنچا جب بیبرس قلعے سے باہر گیا تو کسی نے آکر بوہمنڈ کا بتایا یہ ایلچی خود سلطان تھا یہ سن کر بوہمنڈ پر لرزاں طاری ہو گیا۔ بیبرس کی بیدار مغزی نے جہاں اسے اپنی عوام کی آنکھوں کا تارا بنا رکھا تھا وہاں دشمنوں کے دل پر ایسی ہیبت طاری کر دی تھی کہ سب اس کا نام سن کر تھراتے تھے۔</h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;">تاتاریوں کو انکی عروج میں روکنے والا یہی جنگجو تھا۔ معرکہ عین جالوت کا ہیرو بھی بیبرس کو ہی کہا جاتا ہے ۔ اس کے سامنے جب کوئی ہلاکو خان کے ظلم و جبر کی باتیں کرتا تو بیبرس قہقہہ لگا کر کہتا'' وقت آنے دو تاتاریوں کو ہم دکھا دیں گے کہ لڑنا صرف وہ نہیں جانتے۔‘‘ تاتاریوں کے عروج کے دور میں سلطان بیبرس کے دربار میں جب ہلاکو کے ایلچی آئے اور بدتمیزی سے بات کی تو بیبرس نے انکے سر قلم کر کے قاہرہ کے بازاروں میں لٹکا دئیے تاکہ لوگوں کو پتہ چل جائے کہ اب لڑنا ہو گا یا مرنا ہو گا ۔ تاریخ گواہ ہے کہ مصر کے اس بہادر نے تاتاریوں کو پہلے ہی معرکے میں ایسی شکست دی کہ اس کے بعد وہ آگے بڑھنے کی ہمت کھو بیٹھے۔ بیبرس نے یکم جولائی 1277ء کو وفات پائی اور اسے دمشق کے المکتبۃ الظاہریۃ میں دفن کیا گیا ۔</h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;">طیبہ بخاری</h2><div><h2 dir="rtl" style="text-align: right;">بشکریہ دنیا نیوز</h2></div><div><br /></div>KHAWAJA UMER FAROOQhttp://www.blogger.com/profile/11468318155300615604noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-6558324054135046872.post-37772264480213376812021-06-09T04:56:00.005-07:002021-10-19T05:01:11.905-07:00عظیم منگول قبیلے کا سردار قبلائی خان طاقتور حکمران کیسے بنا ؟<h2 dir="rtl" style="text-align: right;"><div class="separator" style="clear: both; text-align: center;"><a href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEjKrT-5EYIZxxk4jr0_ZWzvuGV19rGBdQFaaQ7sqIaLZdzjsiAz3MiDjrRnYOE7VUfaj6nhgSMggQlA2FVXAP6zrMAM50SWOfrO_XAtsLpduEzePrKpaBaS7UUgjewUBvhP1ciymF7ihEM/s2048/Kublai+Khan.jpg" style="margin-left: 1em; margin-right: 1em;"><img border="0" data-original-height="1463" data-original-width="2048" height="286" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEjKrT-5EYIZxxk4jr0_ZWzvuGV19rGBdQFaaQ7sqIaLZdzjsiAz3MiDjrRnYOE7VUfaj6nhgSMggQlA2FVXAP6zrMAM50SWOfrO_XAtsLpduEzePrKpaBaS7UUgjewUBvhP1ciymF7ihEM/w400-h286/Kublai+Khan.jpg?imgmax=1600" width="400" /></a></div>یہ 1227 عیسوی کا ذکر ہے جب عظیم منگول قبیلے کا سردار تیموجن (دنیا اسے چنگیز خان اور خاقان اعظم کے نام سے بھی جانتی ہے ) جب اپنی زندگی کی آخری جنگ لڑتے ہوئے گھوڑے سے گر کر صاحب فراش ہوا ، یہ اس کی زندگی کا خلاف توقع واقعہ تھا ۔ شاہی خیمے میں بیٹے، پوتے، مشیر ، وزیر اور معتمد خاص سر جھکائے پریشان ، گہری سوچ میں ڈوبے ہوئے تھے، خود تیموجن سردار ایک ایک درباری کا خاموشی مگر پھٹی پھٹی نظروں سے جائزہ لے رہا تھا ۔ سردار لاکھوں افراد کی زندگیوں کے فیصلے کیا کرتا تھا، وہ خود کو موت پر بھی حاوی سمجھ بیٹھا تھا۔ اس پر ہی کیا موقوف ، رعایا کو بھی یقین تھا کہ موت سردار کے قریب بھی نہیں آ سکتی۔ اب اسکی پھٹی پھٹی نگاہیں پیغام دے رہی تھیں کہ وہ قانون قدرت کا ادراک کر چکا ہے ۔</h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;">یہ وہی سردار تھا جس کے جرنیل دیکھتے ہی دیکھتے، چند عشروں میں خون کی ہولی کھیلتے، کھوپڑیوں کے مینار بناتے تھے۔ ہنستے بستے شہروں اور دیہات کو ویران کر کے بیجنگ سے ماسکو تک اپنا جھنڈا گاڑ کر دنیا کی سب سے وسیع سلطنت کے حکمران بن چکے تھے ، یہ سلطنت تین کروڑ مربع کلو میٹر پر محیط تھی۔ منگول سلطنت ایشیاء اور یورپ کے بڑے علاقوں پر مشتمل تھی۔ وسعت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ آج ان علاقوں کی کل آبادی تین ارب نفوس پر مشتمل ہے ۔ یقینا سردار لیٹا سوچ رہا ہو گا کہ کہاں کروڑوں پر میل پھیلی ہوئی سلطنت اور کہاں یہ چند گز پرمشتمل جنگی خیمہ۔ جس میں سردار کے چاروں بیٹے ، گیارہ پوتے ، وزراء اور مشیران بھی دم سادھے کھڑے تھے ۔ سردار نے اچانک گیارہ سالہ بچے پر اپنی نظریں جما لیں اور اگلے ہی لمحے اس مرد شناس سردار نے انگلی کے اشارے سے بچے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا، ''میرا یہ پوتا مجھ سے کہیں بڑی سلطنت کا مالک ہو گا اور مجھ سے کہیں زیادہ بڑی عمر پائے گا‘‘۔ اپنے پوتے قبلائی خان کے بارے پیش گوئی کرنے والے منگول سردار چنگیز خان کی وفات کے تیس سال بعد پیش گوئی سچ ثابت ہوئی اور قبلائی خان اپنے دادا سے بھی بڑی سلطنت کا حکمران بنا۔</h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;"><div class="separator" style="clear: both; text-align: center;"><a href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEjKC3K5TbITw_Pr-I2Iod97PwpBo72c0EC5mz7jnQAkBZv1SlsEqhMS69lK2V97AMiWt5ueXEYxd5898J2wIKWn1kyjz68U2u0krXYs9h2mQVMl6SlUeHc0gm43uFvuo9VL64KLLpcST0M/s2048/Kublai+Khan+2.jpg" style="margin-left: 1em; margin-right: 1em;"><img border="0" data-original-height="1536" data-original-width="2048" height="300" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEjKC3K5TbITw_Pr-I2Iod97PwpBo72c0EC5mz7jnQAkBZv1SlsEqhMS69lK2V97AMiWt5ueXEYxd5898J2wIKWn1kyjz68U2u0krXYs9h2mQVMl6SlUeHc0gm43uFvuo9VL64KLLpcST0M/w400-h300/Kublai+Khan+2.jpg" width="400" /></a></div></h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;">قبلائی خان چنگیز خان کے سب سے چھوٹے بیٹے تولوئی خان کا بیٹا تھا جیسے تولوئی خان اپنے باپ کا سب سے لاڈلہ بیٹا تھا عین اسی طرح قبلائی خان بھی اپنے باپ کا لاڈلہ بیٹا تھا۔ قبلائی خان 1215ء میں چین کے صوبے گنسو کے شہر ینگی میں بدھ مت کے پروکاروں کی عبادت گاہ ڈافو میں پیدا ہوا ۔ بچپن ہی سے چنگیز خان قبلائی خان کی رائے کو مقدم جانتا تھا۔ اور ہمیشہ اپنے وزیروں کو کہتا تھا کہ میری عدم موجودگی میں سلطنت کے معاملات قبلائی خان دیکھا کرے گا۔ چنگیز خان ، قبلائی خان کی ہر بات کو غور سے سنتا تھا۔ وہ انتہائی زیرک اور باشعور تھا۔سیاسیات ، فلسفہ، معاشرتی علوم کے ساتھ ساتھ دنیا بھر کی متعدد زبانوں پر اسے عبور حاصل تھا۔ 1251 ء میں چنگیز خان کی وصیت کو پس پشت ڈالتے ہوئے قبلائی خان کے بھائی مونکے خان کو منگول سلطنت کا سردار بنا دیا گیا ۔ انہوں نے قبلائی خان کو جنوبی چین کا گورنر مقرر کرتے ہوئے اسے ڈالی سلطنت کو فتح کرنے کی ذمہ داری سونپ دی ۔ قبلائی خان کے جنگی اور قائدانہ سفر کی یہیں سے شروعات ہوئیں۔ اس نے تھوڑے ہی عرصہ میں جنوبی چین کو فتح کر ڈالا۔ اس نے اپنا دارالحکومت چینی شہر شانگ ٹو میں قائم کر لیا ۔ جنوبی چین میں اس نے شاندار قیام گاہیں، شکار گاہیں اور محلات تعمیر کرائے ۔</h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;">مونکے خان اپنے دادا چنگیز خان کی طرح انتہائی سفاک اور ظالم حکمران تھا ۔ اس کے دور میں سقوط بغداد کا سانحہ رونما ہوا جس میں آخری عباسی خلیفہ کو قتل کر دیا گیا، ایک اندازے کے مطابق اس نے آٹھ لاکھ افراد قتل کئے۔ لیکن 1259ء میں ہوچو کے مقام پر ایک جنگ میں مونکے خان مارا گیا اور یوں قبلائی خان خاقان اعظم مقرر ہوا۔ 1261ء میں اپنے بھائی اریک بوک کو شکست دے کر وہ خود منگول سلطنت کا بادشاہ بن گیا۔ اس کا بھائی اریک بوک فرار ہو کر در بدر پھرتا رہا۔ آخر کار 1266ء میں قبلائی خان کے ہاتھوں مارا گیا ۔ اگرچہ چنگیز خان نے اپنی زندگی میں چین کے بھی بہت سارے علاقے فتح کر لئے تھے لیکن باوجود خواہش کے چین کا مکمل کنٹرول حاصل کرنے میں وہ کبھی کامیاب نہ ہو سکا ۔ چنانچہ اس کا یہ خواب پوتے قبلائی خان نے پورا کر دکھایا۔ اس نے نہ صرف پورے چین پر قبضہ حاصل کر لیا تھا بلکہ وہاں ایک نئی بادشاہت کی بنیاد بھی رکھی جسے تاریخ ''یو آن ‘‘کے نام سے جانتی ہے۔ قبلائی خان کی سلطنت اتنی وسیع تھی کہ اس کا احاطہ کرنا مشکل تھا۔ اس نے ہر ناممکن کام کو ممکن بنایا۔ </h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;">چین اور اردگرد کے علاقوں پر مشتمل قبلائی حکومت مختلف تہذیبوں کا مرقع تھی ، علاوہ ازیں علوم و فنون کے نابغہ روزگار افراد کے منگول سلطنت میں جمع ہو جانے کی وجہ سے منگول بھی اپنی فطرت اور روایات تبدیل ہونے پر مجبور ہو گئے۔ قبلائی خان اپنے دادا، باپ اور بھائیوں کی شہرت کو ناپسند کرتا تھا اس لئے اس نے قدیم منگول روایات کی حوصلہ شکنی کر کے بہت جلد اپنی مرضی کی باتیں مسلط کر دیں۔ معروف سیاح مارکو پولو قبلائی خان کے دربار میں لگ بھگ بیس سال تک ملازمت کرتا رہا ۔ مارکو پولو نے قبلائی خان کی ذاتی زندگی بارے دلچسپ باتیں تحریر کی ہیں۔ اس کا کہنا تھا کہ قبلائی خان کی چار بیویاں اور کثیر تعداد میں باندیاں بھی تھیں۔ مارکو پولو کہتا ہے کہ قبلائی خان نے ایک ایسا محل بھی تعمیر کرایا تھا جس کے گرد 25 کلومیٹر لمبی دیوار بنائی گئی تھی ۔ اس محل میں بیک وقت ایک ہزار گھوڑے داخل ہو سکتے تھے ۔</h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;">محل کے میں ہال میں 16 ہزار نشستوں کی گنجائش تھی۔ اس ہال سونے چاندی اور قیمتی ریشمی کپڑے سے مزین کرسیاں رکھی گئی تھیں۔ شانگ ٹو میں قبلائی خان کے محل اور اس کے گرد و نواح کو دنیا کے کونے کونے سے لائے گئے قیمتی ، نایاب اور خوبصورت درختوں اور پودوں پر مشتمل باغات سے سجایا گیا تھا۔ آگے چل کر مارکو پولو لکھتا ہے کہ خاقان کی موجودگی میں دربار شاہی سے آدھے میل تک کسی قسم کے شور وغل یا اونچی آواز میں بولنے کی اجازت نہ تھی۔ دربار میں حاضر ہونے کے لئے ہر شخص کو سفید چمڑے کے جوتے پہننا پڑتے تھے تاکہ سونے چاندی کی تاروں سے مزین قیمتی قالین خراب نہ ہوں۔ 1294 میں تقریباََ 80 سال کی عمر میں قبلائی خان زندگی کی بازی ہار گیا منگول روایات کے مطابق اس کی چاروں بیویوں اور خادماؤں کو زندہ دفن کیا گیا، اس وہم کے ساتھ کہ وہ اس کی آئندہ کی زندگی میں خدمت کریں گی۔ اس کی وفات کے بعد سلطنت کا شیرازہ بکھرتا چلا گیا۔</h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;">خاور نیازی</h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;">بشکریہ دنیا نیوز</h2><br /> KHAWAJA UMER FAROOQhttp://www.blogger.com/profile/11468318155300615604noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-6558324054135046872.post-90429773153609892262021-01-18T04:32:00.001-08:002021-07-21T06:46:12.739-07:00بخت نصر ۔۔۔۔ بابل کا ظالم بادشاہ<h2 dir="rtl" style="text-align: right;"> <div class="separator" style="clear: both; text-align: center;"><a href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEhoZ0AcPWvdAZJpcWodwuSF2pOjn6MC27PPnNsp0M_Qacfynw301XzaVLoutoNnSjm25Tbwn_iqIP45rRBpnJQBiG6wMujIsWnnWlMxb_5Qx1CCjHa6_B49XjkY3ICvifzTdBVFGtA37bU/s1920/Great+Warriors+5.jpg" style="margin-left: 1em; margin-right: 1em;"><img border="0" data-original-height="1080" data-original-width="1920" height="225" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEhoZ0AcPWvdAZJpcWodwuSF2pOjn6MC27PPnNsp0M_Qacfynw301XzaVLoutoNnSjm25Tbwn_iqIP45rRBpnJQBiG6wMujIsWnnWlMxb_5Qx1CCjHa6_B49XjkY3ICvifzTdBVFGtA37bU/w400-h225/Great+Warriors+5.jpg?imgmax=1600" width="400" /></a></div>بخت نصر ( 605 قبل مسیح سے 562 قبل مسیح تک ) اپنے زمانے کا سفاک ترین اور ظالم بادشاہ تھا، اکثر مورخین کہتے ہیں کہ اس کے دماغ میں ہر لمحہ '' فتح کر لو‘‘ کا بھوت سمائے رہتا تھا۔ جنگ جو تو تھا ہی ہر لمحہ کچھ کر گزرنے کا بھوت بھی اس کے سرپر سوار رہتا تھا۔ کہا جاتا ہے کہ وہ بلا کا ذہین اور اعتماد کی دولت سے مالا مال تھا۔ اسے بنو کد نصر کے نام سے بھی یاد کیا جاتا تھا۔ ملک بابل کا بادشاہ تھا ۔ یہاں یہ بتانا ضروری ہے کہ بابل موجودہ عراق کے قدیم نام ''میسو پو ٹیمیا ‘‘ کا ایک قدیم شہر تھا ۔''میسوپوٹیمیا‘‘ قدیم تہذیب کے حوالے سے جانا جاتا ہے۔ بابل کلدانی سلطنت کا دارلحکومت تھا جو موجودہ بغداد سے لگ بھگ 65 کلومیٹر کی مسافت پر دریائے فرات کے کنارے آباد تھا۔ 1750 قبل مسیح میں ''بابی لونیا ‘‘ کے بادشاہ حمو رابی نے اسے دارالسلطنت بنایا تو یہ دنیا کا خوبصورت ترین شہر بن گیا ۔ 4000 سال قبل مسیح کی تحریروں میں بھی اس شہر کا ذکر ملتا ہے۔ 689 قبل مسیح میں بادشاہ بنو کد نصر یا بخت نصر نے اسے دوبارہ تعمیر کرایا، پرانا شہر دریائے فرات کے کنارے چونکہ آباد تھا، بخت نصر نے دریا پر پل بنوایا ، اور مغربی کنارے کا ایک وسیع علاقہ بھی شہر کی حدود میں شامل کر لیا۔ اس کے عہد میں شہر کی آبادی 5 لاکھ نفوس پر مشتمل تھی۔</h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;">بخت نصر کا باپ ''نبو لاسر‘‘ بھی بابل کا بادشاہ تھا۔ باپ نے صلاحیتوں کو بھانپتے ہوئے اسے مصر پر حملے کے لئے بھیجا۔ اس نے زمانہ شہزادگی میں ہی مصر فتح کر ڈالا۔ اپنے باپ نبو لاسر کی وفات کے بعد یہ تخت نشیں ہوا۔ اس کے عہد سلطنت میں زیادہ تر دولت بابل کی قلعہ بندی اور تعمیرات پر خرچ ہوتی رہی، اس کا محل عجوبہ تھا۔ اس کے تعمیر کردہ ''معلق باغات‘‘ دنیا کے سات قدیم عجائبات میں دوسرے نمبر پر شمار ہوتے ہیں ۔ ایک روایت کے مطابق اس نے یہ باغات اپنی ملکہ شاہ بانو (ایرانی) کی خوشی کی خاطر تعمیر کروائے تھے کیونکہ وہ ہر وقت اپنے ملک کی سرسبز و شاداب وادیوں کو یاد کرتی رہتی تھی، 80 فٹ بلند یہ باغات معلق نہ تھے بلکہ ایسی جگہ لگائے گئے تھے جو درجہ بدرجہ بلند ہوتی ہوئی 350 فٹ تک پہنچ گئی تھی۔ ان باغات کے علاوہ بنو نصر کے زمانے میں بابل علم وادب اور تہذیب و تمدن کا بڑا مرکز بھی مانا جاتا تھا۔</h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;"><div class="separator" style="clear: both; text-align: center;"><a href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEi54vBrOI1kqnPXnKwNCd78w1gIVO9BjL32J76jxjAK72J0N44DWlZtRsj7lgSh3JljI5cV9_xgOVrABvGk9L_Xy6yRSZVxc0Hrmqbr1_hyphenhyphenzz2O6xZM_9PdgEcs84PaVJ5wgHOixuLWXT8/s1920/Great+Warriors+3.jpg" style="margin-left: 1em; margin-right: 1em;"><img border="0" data-original-height="1105" data-original-width="1920" height="230" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEi54vBrOI1kqnPXnKwNCd78w1gIVO9BjL32J76jxjAK72J0N44DWlZtRsj7lgSh3JljI5cV9_xgOVrABvGk9L_Xy6yRSZVxc0Hrmqbr1_hyphenhyphenzz2O6xZM_9PdgEcs84PaVJ5wgHOixuLWXT8/w400-h230/Great+Warriors+3.jpg" width="400" /></a></div></h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;">یہ چھٹی صدی قبل مسیح کی بات ہے ، بنی اسرائیل کی سرکشی ، نافرمانیاں اور مشرکانہ حرکتیں حد سے تجاوز کر چکی تھیں ۔ ہر طرف ظلم و جبر ، فساد اور لوٹ مار کا بازار گرم تھا۔ تو قوم عمالقہ کا یہ ظالم بادشاہ بابل سے ایک بہت بڑی فوج کے ساتھ آندھی وطوفان کی مانند راستے میں آنے والی تمام حکومتوں کو پامال کرتا ہوا فلسطین پہنچ گیا ۔ تھوڑے ہی عرصے میں اس کی اینٹ سے اینٹ بجا دی۔ چالیس ہزار سے زائد علماء کو قتل کر دیا یہاں تک کہ وہاں ایک عالم بھی زندہ نہ بچا۔ بخت نصر بنی اسرائیل کے اسی ہزار افراد کو قیدی بنا کر بابل لے گیا۔ بخت نصر کی فوج نے بیت المقدس میں عظیم الشان محلات کو کھنڈرات میں بدل دیا۔ ہیکل سلیمانی میں موجود وسیع وعریض نادر نایاب کتب سے مزین کتب خانہ جلا کر راکھ کر دیا جن میں دوسرے مذاہب کے اصلی نسخے بھی شامل تھے۔ قدرت کسی قوم پر اپنا قہر اور عذاب ایک دم سے نازل نہیں فرماتی بلکہ انہیں پہلے سدھرنے کے پورے پورے مواقع فراہم کرتی ہے ، پھر اسے جھنجوڑتی ہے اور سبق سکھاتی ہے ۔ تفسیر فاران میں ہے کہ جب یہودیوں نے فساد شر انگیزی اور اللہ کے احکامات سے روگردانی کی تو اللہ عزو جل نے کسی ایسے شخص کو ان پر مسلط کر دیا جس نے ان کو ہلاکت اور بربادی سے دو چار کر دیا۔</h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;">پہلے جب انہوں نے فتنہ فساد کیا اور توریت کے احکامات کو رد کیا تو بخت نصر کو انکی طرف بھیجا جس نے انکو تہس نہس کر دیا۔ کچھ عرصہ بعد جب دوبارہ انہوں نے سر اٹھایا تو طیطوس رومی نے انکی اینٹ سے اینٹ بجا دی۔ پھر کچھ عرصہ بعد جب دوبارہ انہوں نے شرانگیزی شروع کی تو فارسی مجوسیوں نے ان کا حشر نشر کر دیا۔ اس طرح 515 قبل مسیح میں بیت المقدس دوبارہ آباد ہوا ۔ بنی اسرائیل نے حضرت عزیر السلام کی موجودگی میں رو رو کر توبہ کی اور آئندہ خدا کے احکام کے مطابق زندگی گزارنے کا عہد کیا۔ لیکن یہ زندگی بنی اسرائیل کو پھر راس نہ آئی ۔ فارغ البالی نصیب ہوئی تو ایک دوسرے سے اختلاف اور جھگڑے پھر معمول کا مشغلہ بن گئے۔ یہاں تک کہ رفتہ رفتہ بنی اسرائیل پھر اسی حالت کو پہنچ گئے جس میں ان پر بخت نصر کی شکل میں عذاب نازل ہوا تھا۔</h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;">خاور نیازی</h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;">بشکریہ دنیا نیوز</h2>KHAWAJA UMER FAROOQhttp://www.blogger.com/profile/11468318155300615604noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-6558324054135046872.post-26503096442164599102021-01-18T04:24:00.002-08:002021-10-19T04:39:41.668-07:00بیبرس : منگولوں کی موت بننے والا ایک غلام<h2 dir="rtl" style="text-align: right;"><div class="separator" style="clear: both; text-align: center;"><a href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEgw9hXZVm330wmxDS5uFKBeL79MLnbatpZOwInlE73I3yU3S3ECHMrblJiCFQySoAV9R-0aTpkjq8_rjXVj4taekMnaU8or4oba6t45azNKJNNFznfmBnjwpL5ffubbOFBlygr64kXWJCE/s1920/Great+Warriors.jpg" style="margin-left: 1em; margin-right: 1em;"><img border="0" data-original-height="1280" data-original-width="1920" height="266" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEgw9hXZVm330wmxDS5uFKBeL79MLnbatpZOwInlE73I3yU3S3ECHMrblJiCFQySoAV9R-0aTpkjq8_rjXVj4taekMnaU8or4oba6t45azNKJNNFznfmBnjwpL5ffubbOFBlygr64kXWJCE/w400-h266/Great+Warriors.jpg?imgmax=1600" width="400" /></a></div>بارہویں صدی عیسوی میں چنگیز خان کی قیادت میں صحرائے گوبی کے شمال سے خوں خوار منگول بگولا اٹھا جس نے صرف چند دہائیوں میں ہی دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ منگول لشکروں کے سامنے چین، خوارم، وسط ایشیاء، مشرقی یورپ اور بغداد کی حکومتیں ریت کی دیواریں ثابت ہوئیں، منگول حملے کا مطلب بے دریغ قتل عام اور شہر کے شہر کی مکمل تباہی تھی.....دنیا تسلیم کر چکی تھی کہ ان وحشیوں سے مقابلہ ناممکن ہے، منگول نا قابل شکست ہیں، انہوں نے اول خوارزم کی اینٹ سے اینٹ بجائی اور پھر پانچ سو سال سے زائد قائم خلافت عباسیہ کو انجام سے دوچار کیا، انہوں نے خوارزم میں کھوپڑیوں کے مینار بنائے تو بغداد میں اتنا خون بہایا کہ گلیوں میں کیچڑ اور تعفن کی وجہ سے عرصے تک چلنا ممکن نہ رہا۔ اس پرآشوب دور میں مسلمانوں کی حیثیت کٹی پتنگ کی سی تھی، مسلمان نفسیاتی طور پر کسی مقابلے کے قابل نظر نہ آتے تھے. ایسے میں مصر میں قائم مملوک سلطنت ایک مدھم سی امید کی لو تھی وہی سلطنت جس کی بھاگ دوڑ غلام اور غلام زادوں کے ہاتھ میں تھی ''منگول۔ یوروپی ایکسز‘‘ کا اگلا ہدف بھی یہی مسلم ریاست تھی۔</h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;">وہ آخری ریاست جس کی شکست مسلمانوں کے سیاسی وجود میں آخری کیل ثابت ہوتی، مملوک بھی اس خوفناک خطرے کا پورا ادراک رکھتے تھے، وہ جانتے تھے آج نہیں تو کل یہ معرکہ ہو کر رہے گا۔ اور یہ معرکہ ہوا۔ سن تھا ستمبر 1260ء کا، اور میدان تھا ''عین جالوت‘‘! منگول مسلم سیاسی وجود کو ختم کرنے سر پر آن پہنچ چکے تھے، کسی طوفان کی طرح ، جو بڑی بڑی سلطنتوں کوخس و خاشاک کی طرح بہا کر لے گئے تھے آج ان کے مد مقابل مملوک تھے جسکی قیادت رکن الدین بیبرس کر رہا تھا، وہی بیبرس جو کبھی خود بھی فقط چند دینار کے عوض فروخت ہوا تھا، کم وسائل اور عددی کمتری کے باوجود بیبرس کو یہ معرکہ ہر حال میں جیتنا تھا۔ مسلمانوں کی سیاسی بقاء اور آزادی کو قائم رکھنے کے لیے آخری سپاہی، آخری تیر اور آخری سانس تک لڑائی لڑنی تھی ۔ طبل جنگ بجا، بد مست طاقت اور جنون کے درمیان گھسمان کا رن پڑا، طاقتور منگول جب اپنی تلوار چلاتے تھے تو ان کا وار روکنا مشکل ترین کام ہوتا تھا لیکن آج جب مملوک وار روکتے تو تلواریں ٹکرانے سے چنگاریاں نکلتیں اور پھر جب جوابی وار کرتے تو منگولوں کے لیے روکنا مشکل ہو جاتا۔</h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;"><div class="separator" style="clear: both; text-align: center;"><a href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEj7-dc9UZDlGzfv0YvrTWq8s9yB4pLt8uXjrfxN4yUT8zMwzWcW_8Lx6pY-U1IJAb-JksHeAWdaJd7jAcMXwbLbnAJ058ZVnfxwMWOnL2yfj_Cxo995Nn_EaRFp2I_dzGFJ-5nLZqis1m8/s1920/Great+Warriors+3.jpg" style="margin-left: 1em; margin-right: 1em;"><img border="0" data-original-height="1105" data-original-width="1920" height="230" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEj7-dc9UZDlGzfv0YvrTWq8s9yB4pLt8uXjrfxN4yUT8zMwzWcW_8Lx6pY-U1IJAb-JksHeAWdaJd7jAcMXwbLbnAJ058ZVnfxwMWOnL2yfj_Cxo995Nn_EaRFp2I_dzGFJ-5nLZqis1m8/w400-h230/Great+Warriors+3.jpg" width="400" /></a></div></h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;">منگولوں نے مملوکوں کو دہشت زدہ کرنے کی بھرپور کوشش کی لیکن یہ وہ لشکر نہیں تھا جو مرعوب ہو جاتا۔ انہوں نے کبھی ایسے جنونی لشکر کا سامنا نہیں کیا تھا ۔ وہ پہلے پسپا ہوئے اور پھر انہونی ہوئی ، منگول میدان جنگ سے بھاگ کھڑے ہوئے، مملوکوں نے انہیں گاجر مولی کی طرح کاٹ کر رکھ دیا، معاملہ یہاں تک پہنچا کہ بھاگتے منگولوں کو عام شہریوں نے بھی قتل کرنا شروع کر دیا۔ اور یہ وہم کہ ''منگول ناقابل شکست ہیں‘‘ ،''عین جالوت‘‘ کے میدان میں ہمیشہ کے لیے دفن ہو گیا۔ ''غلاموں‘‘ نے رکن الدین بیبرس کی قیادت میں مسلم سیاسی وجود کی جنگ جیت لی اور رہتی دنیا تک یہ اعزاز اپنے نام کر لیا۔ اس معرکے کے بعد منگول پیش قدمی نہ صرف رک گئی بلکہ آنے والے برسوں میں بیبرس نے منگول مفتوح علاقے بھی ان سے واپس چھین لیے۔ </h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;">''فتوحات کا باپ‘‘: منگولوں کو عبرت ناک شکست دینے کے بعد دنیا بھر میں اس کی دھاک بیٹھ گی اور وہ ''ابوالفتح ‘‘ یعنی فتوحات کا ابو کہلایا۔ دنیا بھر میں ان کے نام کا ڈنکا بجتا تھا، منگول تو کیا اہل مغرب بھی ان کے نام سے ڈرتے تھے، رکن الدین بیبرس نے اپنی خداداد صلاحیت سے'' منگول یوروپئن نیکسس‘‘ کو بھی توڑ ڈالا ۔ اور صلیبی جنگوں میں بھی فاتح رہا، فرانسیسی بادشاہ کنگ لوئیس نہم کو شکست دینے والی مصری فوج کا بھی کمانڈر تھا، اس نے کمزور اور کم ترقی یافتہ فوج کو بھی فرانسیسی بادشاہ کے سامنے کھڑا کر دیا اور انہیں بھاگنے پر مجبور کیا۔ مسلم دنیا اپنے اس عظیم ہیرو کے متعلق بہت کم جانتی ہے ایک ایسا ہیرو جس نے ان کے سیاسی وجود کی جنگ بڑی بے جگری سے لڑی، جس کی پشت پر کوئی قبیلہ بھی نہ تھا اور جو کبھی فقط چند دینار کے عوض بکا تھا لیکن جو مصائب کا مقابلہ کرنا جانتا تھا جو ہمت نہیں ہارتا تھا اور جو امید کا دامن کبھی بھی نہیں چھوڑتا تھا۔ ترکی النسل بیبرس کے نام کا مطلب ہے کہ امیر، لارڈ، نوبل،۔ یہ حکمران کے معنی میں بی لیا جاتا ہے۔ جبکہ چیتا اس کے عام معنی ہیں۔</h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;">غیر ملکی طاقت کا خاتمہ: ۔ اس کا دور شام اور مصر میں قائم مملکت کے تحفظ کے حوالے سے مثالی مانا جاتا ہے، جب اس نے خطے سے یورپی حملہ آوروں کے خوف کا خاتمہ کر دیا تھا۔ وہ ایک ڈھال تھا، اس نے ان علاقوں کو منگولوں اور صلیبی جنگوں کے شوقین مغربی حملہ آروں سے محفوظ بنا دیا تھا، خطے کو لوگ سکھ کا سانس لے سکتے تھے۔ یہی نہیں اس نے مصری سلطنت میں وسعت بھی پیدا کی۔ پیدائش ،</h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;">ابتدائی زندگی اور بادشاہت: اس کے آباء او اجداد بحر اسود کے شمال میں واقع ''دشت کپ چک‘‘ کے باشندے تھے، تاہم پیدائش کی تاریخوں کے بارے میں کچھ ابہام پایا جاتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ اس نے 12 دسمبر 1227ء سے 29 نومبر 1228ء کے درمیانی عرصے میں جنم لیا۔ بعض تاریخی کتب میں 1247ء میں اس کی عمر 24 برس درج ہے جس سے سن پیدائش 1223ء بنتا ہے۔ اس کا خاندان منگولوں کے قبیلے سے نکل کر 1242ء میں بلغاریہ پہنچا تھا، لیکن جلد ہی منگولوں نے بلغاریہ کو بھی سرنگوں کر لیا ، جنگ میں منگولوں نے اس کے والدین کو سنگنیوں کی نوک پر لے لیا۔ یہ وحشت ناک منظر وہ کبھی نہیں بھولا۔ بعد میں وہ دو بار بکا، اور یہ خرید و فروخت منگولوں کی موت کی بن گئی۔</h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;">پہلے یہ غلام ''سواس‘‘ (Siwas) کی غلام منڈی میں بیجا گیا۔ بعد ازاں وہ دوسری غلام منڈی ''ہما‘‘ (Huma) میں فروخت ہوا، یہ اعلیٰ افسر الہ الدین ادیکن البندوکری اسے ترقی دینے کی نیت سے مصر لے آیا، لیکن قسمت میں ابھی اور سیکھنا لکھا تھا۔ کیونکہ جب اس کے آقا کو ہی حکمران مصر الصالح الایوب نے گرفتار کر لیا تو سبھی غلام بھی زیر حراست چلے گئے۔ بادشاہ ایوب نے بیبرس کو اپنی فوج کا کمانڈر بنا دیا۔ وہ غزہ کے مشرق میں لڑی جانے والی 'جنگ لافوربی ‘ (Battle of La Forbe) میں فاتح بن کر نکلا۔ :1260ء میں منگولوں کوعبرت ناک شکست دینے کے بعد وہ فاتح مصر بنا۔ سیف الدین قتوز جنگ میں گھائل ہونے کے بعد چل بسے۔ 24 اکتوبر کو اس کی رسم تاج پوشی ادا کی گئی، اس کی مقبولیت کا یہ عالم تھا کہ تین بیٹوں میں سے دو تخت (السید الباراخ اور سلامیش ) نشین ہوئے ۔یوں ایک غلام نے مصر میں بھی سلطنت کی بنیاد رکھی۔</h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;">ایم آر ملک</h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;">بشکریہ دنیا نیوز</h2>KHAWAJA UMER FAROOQhttp://www.blogger.com/profile/11468318155300615604noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-6558324054135046872.post-6004694223152628022020-05-09T08:20:00.003-07:002021-10-19T04:49:10.930-07:00قلعہ روہتاس اور شیر شاہ سوری<div dir="ltr" style="text-align: left;" trbidi="on">
<div class="separator" style="clear: both; text-align: center;">
<a href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEiPSD8f5V7qbjc35_zoNNx8_79q8oGPp7sB4NGnTtPTxg7olRnjI4fKURpkjToXt7Wn0VLOoqCaARQqG2g3jPD5bQBsQpVUkg7_WXAqbXAVybI-i7RdjsdWeAA6ydRnHgpnhyphenhyphenNSVriwZU4/s1600/Rohtas+Fort.jpg" imageanchor="1" style="margin-left: 1em; margin-right: 1em;"><img border="0" data-original-height="600" data-original-width="800" height="300" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEiPSD8f5V7qbjc35_zoNNx8_79q8oGPp7sB4NGnTtPTxg7olRnjI4fKURpkjToXt7Wn0VLOoqCaARQqG2g3jPD5bQBsQpVUkg7_WXAqbXAVybI-i7RdjsdWeAA6ydRnHgpnhyphenhyphenNSVriwZU4/s400/Rohtas+Fort.jpg?imgmax=1600" width="400" /></a></div>
<h2 dir="rtl" style="text-align: right;">
کچھ لوگ ہماری آنکھوں سے اوجھل ہو جاتے ہیں لیکن ان کی شخصیت کے ان مٹ رنگ ہمیں ان کے وجود کا احساس دلاتے رہتے ہیں۔ پوٹھوہار کے خطے میں تاریخ کے آثار یہاں وہاں بکھرے ملتے ہیں‘ انہیں میں ایک قلعہ روہتاس ہے۔ یہ جہلم سے تقریباً 16 کلومیٹر اور دینہ سے 6 کلومیٹر کی دوری پر ہے۔ آج میں مدتوں بعد یہاں آیا ہوں‘ تقریباً تین دہائیوں کے بعد۔ اس قلعے کی کہانی عجیب ہے اور اس کو تعمیر کرنے والے کی کہانی عجیب تر۔ اب تو یہاں تک پہنچنے کا راستہ کافی بہتر ہو چکا ہے۔ مجھے یاد ہے جب میں پہلی بار یہاں آیا تھا تو راستے میں پانی کی رکاوٹ تھی جس میں ہماری گاڑی پھنس گئی تھی۔ 1997ء میں قلعہ روہتاس کو ورلڈ ہیریٹیج سنٹر قرار دے دیا گیا تھا‘ جس کے نتیجے میں اس تاریخی ورثے کو محفوظ بنانے کے اقدامات کیے گئے ہیں۔ قلعے کی چوڑی دیوار پر کھڑے ہوں تو دور کے مناظر دکھائی دیتے ہیں۔ اب تو درمیان میں آبادیاں آ گئی ہیں‘ لیکن سولہویں صدی میں جب یہ قلعہ بنا تھا تو اس کو تعمیر کرنے والوں نے جگہ کا سوچ سمجھ کر انتخاب کیا تھا۔ </h2>
<h2 dir="rtl" style="text-align: right;">
قلعہ جس جگہ تعمیر کیا گیا وہ سطح سمندر سے کافی بلندی پر واقع تھی‘ جس کے قریب ہی پانی کی فراوانی تھی۔ قلعے کی دیوار سے کشمیر سے آنے والا راستہ بالکل نگاہوں کے سامنے آتا ہو گا۔ یہ قلعہ شیر شاہ سوری نے 1541ء میں تعمیر کرنے کا حکم دیا تھا تاکہ ایک طرف مغلوں کے وفادار گکھڑ قبائل پر نظر رکھی جا سکے جہاں سے اس کا حریف ہمایوں کسی وقت بھی واپس آ سکتا تھا۔ وہی ہمایوں جو کبھی ہندوستان میں سلطنتِ مغلیہ کا طاقتور بادشاہ تھا اور شیر شاہ سوری کے ہاتھوں شکست کھا کر ایران بھاگ گیا تھا۔ قلعے کی دیواروں پر موسم سرما کی اجلی دھوپ پھیلی ہوئی ہے اور میں ایک پتھر سے ٹیک لگا کر بیٹھ جاتا ہوں۔ آنکھیں بند کر کے شیر شاہ سوری کا تصور کرتا ہوں جس نے تن تنہا مغلوں کی مضبوط حکومت کو شکست دی تھی۔ اس حیران کن کہانی کی ابتدا 1486ء میں ہوتی ہے جب حسین خان کے گھر ایک بیٹا پیدا ہوا جس کا نام فرید خان رکھا گیا۔ </h2>
<h2 dir="rtl" style="text-align: right;">
<div class="separator" style="clear: both; text-align: center;">
<a href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEh2gcmZelX0p8yFUC9uyLkch8QfPpUdI-vEFxih77hL0Qy7mqHLZRk0O0ZqNgNLCpGH3p7V6iwvSsiU6xlAz4PU3iVwSGklx8ZlOJ0d6Pr1-6EBsl-ag3CEsvFi8EorddJR27NTRNNB9Kw/s1600/Rohtas+Fort+2.jpg" imageanchor="1" style="margin-left: 1em; margin-right: 1em;"><img border="0" data-original-height="600" data-original-width="800" height="300" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEh2gcmZelX0p8yFUC9uyLkch8QfPpUdI-vEFxih77hL0Qy7mqHLZRk0O0ZqNgNLCpGH3p7V6iwvSsiU6xlAz4PU3iVwSGklx8ZlOJ0d6Pr1-6EBsl-ag3CEsvFi8EorddJR27NTRNNB9Kw/s400/Rohtas+Fort+2.jpg" width="400" /></a></div>
</h2>
<h2 dir="rtl" style="text-align: right;">
جب ابراہیم سور اپنے بیٹے حسین کے ہمراہ پنجاب آئے تو یہ بہلول لودھی کا دور تھا اور انہیں پنجاب میں جلال خان کے پاس ملازمت حاصل کرنے میں کوئی مشکل پیش نہ آئی۔ حسین کی محنت اور وفاداری نے جلال خان کا دل جیت لیا اور اس نے سہسرام، کان پور ٹانڈا، حاجی پور اور خواص پور کی وسیع و عریض جاگیریں حسین کے نام کر دیں۔ یہ حسین کی محنت اور وفاداری کا انعام اور اعتراف تھا۔<br />یہیں حسین کے گھر فرید خان پیدا ہوا۔ حسین کی اولاد میں سب سے بڑا ہونے کی وجہ سے وہ حسین کا وارث تھا لیکن سوتیلی ماں باپ بیٹے کے درمیان دیواریں کھڑی کرنے میں مصروف رہتی تھی۔ فرید خان اس سارے ماحول سے تنگ آ کر گھر سے چلا گیا۔ ان کی منزل جون پور تھی۔ جون پور اس زمانے میں ثقافت اور علم کا ایک مرکز تھا۔ یہاں فرید خان نے تین سال گزارے اور اس دوران علم و ادب اور عربی و فارسی زبانوں پر دسترس حاصل کی۔ </h2>
<h2 dir="rtl" style="text-align: right;">
اس کا اگلا پڑائو بہار تھا‘ جہاں بہار شاہ لوہانی کی حکمرانی تھی۔ جلد ہی بہار شاہ کو معلوم ہو گیا کہ فرید خان غیر معمولی صلاحیتوں کا مالک ہے۔ ایک بار جب بہار شاہ شکار پر تھا تو اچانک ایک شیر اس پر حملہ آور ہوا۔ اس سے پہلے کہ شیر اس کو کوئی گزند پہنچاتا فرید خان بجلی کی سی تیزی سے شیر کی طرف لپکا اور اپنی تلوار سے اس کا کام تمام کر دیا۔ موت بہار شاہ کو چھو کر گزر گئی۔ اس واقعے سے بہار شاہ کی نگاہوں میں فرید خان کا رتبہ اور بلند ہو گیا اور اس نے فرید خان کو شیر خان کا خطاب دیا۔ یہ خطاب فرید خان کے لیے خوش قسمتی کا سامان لایا اور پھر تاریخ نے فرید خان کو شیر شاہ سوری کے نام سے یاد رکھا۔ اس کے خواب اب نئی دنیاؤں کے متلاشی تھے۔ اسے اس کا موقع جلد ہی مل گیا۔ ظہیرالدین بابر ایک طوفان کی طرح آیا اور پانی پت کے میدان میں ابراہیم لودھی کو شکست دے کر ہندوستان کا حکمران بن گیا۔ </h2>
<h2 dir="rtl" style="text-align: right;">
یہ ہندوستان میں مغلیہ سلطنت کی ابتدا تھی۔ یہ 1526ء کا سال تھا۔ اگلے ہی برس شیر شاہ نے مغلیہ دربار میں اپنی قسمت آزمائی‘ اپنی ذہانت، دلیری اور شجاعت سے مغل فوج میں اپنا مقام بنا لیا‘ بہار پر حملے میں بابر کے ہمراہ حصہ لیا‘ اور اپنی غیر معمولی جنگی مہارت کے جوہر دکھائے۔ شیر شاہ کا مغلیہ فوج میں قیام 1527ء سے 1528ء تک رہا۔ اس دوران اسے مغلوں کے نظامِ سیاست، نظامِ معیشت، عسکری نظام کو بغور پرکھنے کا موقع ملا۔ اس کی دوربین نگاہیں، مستقبل کا وہ منظر دیکھ رہی تھیں جس کا کسی کو اندازہ نہیں تھا‘ سوائے ایک شخص کے جس کا نام ظہیرالدین بابر تھا‘ جو ہندوستان کا حکمران تھا اور جس کے دربار سے شیر شاہ وابستہ تھا۔ ظہیرالدین بابر نے ایک دنیا دیکھی تھی۔ اس نے اپنی فوج کے جنگجو شیر شاہ کی آنکھوں میں وہ سب کچھ دیکھ لیا تھا جو شیر شاہ کے دل کا منظر تھا۔</h2>
<h2 dir="rtl" style="text-align: right;">
بابر نے اپنے قریبی رفقا سے کہا کہ شیر شاہ کی کڑی نگرانی کی جائے۔ شیر شاہ بھانپ گیا کہ وہ بابر کا اعتماد کھو چکا ہے۔ ایک دن وہ اچانک واپس بہار پہنچ گیا اور اپنی طاقت میں اضافہ کرنے لگا۔ بہار شاہ لوہانی کا انتقال ہو چکا تھا۔ بہار شاہ کا بیٹا جلال ابھی چھوٹا تھا۔ عملاً شیر شاہ وہاں کا حکمران بن گیا تھا۔ بنگال کے حکمران سلطان محمود نے شیر شاہ پر حملہ کیا لیکن اسے عبرتناک شکست ہوئی۔ ادھر ظہیرالدین بابر کا 1530ء میں انتقال ہو گیا۔ بابر کے بعد اس کا بیٹا ہمایوں تخت پر بیٹھا۔ ادھر شیر شاہ سوری اپنی طاقت میں مسلسل اضافہ کر رہا تھا‘ حتیٰ کہ 1537ء تک شیر شاہ بہار، بنگال اور آسام کا حکمران بن چکا تھا۔ اب ایک بڑی جست لگانے کا وقت آ گیا تھا۔ شیر شاہ نے سلطنتِ مغلیہ سے ٹکر لینے کی ٹھان لی تھی۔ ادھر ہمایوں نے 1532ء میں ہونے والی جنگ میں محمود لودھی کو شکست دی‘ اور اس کے حوصلے بلند تھے۔ 1539ء میں ہمایوں نے آگرہ کی طرف بڑھتے ہوئے دریائے گنگا کو عبور کیا اور چوسہ کے مقام پر اپنا کیمپ لگایا۔ </h2>
<h2 dir="rtl" style="text-align: right;">
شیر شاہ کو اسی موقع کی تلاش تھی۔ شیر شاہ کی فوج نے ہمایوں کے لشکر پر حملہ کر دیا‘ اور مغلیہ فوج پسپا ہو گئی۔ چوسہ کی جنگ نے شیر شاہ کی برتری ثابت کر دی تھی‘ لیکن فیصلہ کن جنگ اگلے سال قنوج کے مقام پر ہوئی‘ جہاں شیر شاہ کی فوج نے ہمایوں کے لشکر کو عبرتناک شکست دی اور ہمایوں ہندوستان چھوڑ کر ایران کی طرف پسپا ہو گیا۔ یہ 1540ء کا سال تھا جب شیر شاہ سوری پورے ہندوستان کا حکمران بن گیا۔ اسے معلوم تھا کہ مغل اپنی شکست پر خاموش نہیں بیٹھیں گے‘ اسی لیے اگلے سال ہی اس نے قلعہ روہتاس کی تعمیر کا حکم دیا۔ ایک ایسا قلعہ جو کشمیر کے آنے والے راستوں کا نگران ہو۔ شیر شاہ سوری کی حکومت کا دورانیہ صرف 5 برس تھا۔ 1540ء سے 1545ء تک لیکن یہ پانچ سال ہندوستان کی تاریخ میں بہت سے اقدامات کے حوالے سے یاد رکھے جائیں گے‘ جن کے ثمرات ہم آج تک سمیٹ رہے ہیں۔</h2>
<h2 dir="rtl" style="text-align: right;">
ان میں سرِفہرست ہندوستان کے مختلف علاقوں میں سڑکوں کی تعمیر تھی۔ ان میں ایک جرنیلی سڑک‘ جسے ہم جی ٹی روڈ کہتے ہیں‘ اسی دور کی یادگار ہے۔ سڑکوں کے کنارے سرائے خانوں کی تعمیر، ہر سرائے کے ساتھ ایک مسجد اور کنواں۔ اسی طرح روپیہ کا آغاز بھی شیر شاہ سوری کے دور میں ہوا۔ شیر شاہ کے زمانے میں امن وامان کا نظام بہتر ہوا، جرائم میں کمی آئی، ڈاک کا نظام متعارف ہوا، مالیہ کے نظام کا اجرا ہوا، تجارت میں ترقی، پیمائش کے پیمانے شروع ہوئے۔ ان سارے کارناموں کو دیکھیں اور پھر یہ دیکھیں کہ یہ سب کچھ محض پانچ سالوں میں کیا گیا تو یقین آ جاتا ہے کہ شیر شاہ ایک غیر معمولی شخصیت کا عسکری علوم کا ماہر اور انتہائی موثر ایڈمنسٹریٹر تھا‘ جس کی پوری زندگی حرکت سے عبارت تھی۔ اس کی موت بھی اس وقت ہوئی جب وہ کالنجر قلعے کا محاصرہ کیے ہوئے تھا اور قلعے کی مضبوط دیواروں کو توڑنے کے لیے بارود کا استعمال کیا جا رہا تھا۔ اپنے ہی بارود کے ایک گولے نے اسے گھائل کر دیا اور وہ جانبر نہ ہو سکا۔ اور آج روہتاس قلعے کی دیوار پہ بیٹھے میں سوچ رہا تھا‘ واقعی کچھ لوگ ہماری آنکھوں سے اوجھل ہو جاتے ہیں لیکن ان کی شخصیت کے ان مٹ رنگ ہمیں ان کے وجود کا احساس دلاتے رہتے ہیں۔</h2>
<h2 dir="rtl" style="text-align: right;">
شاہد صدیقی</h2>
<h2 dir="rtl" style="text-align: right;">
بشکریہ دنیا نیوز</h2>
</div>
KHAWAJA UMER FAROOQhttp://www.blogger.com/profile/11468318155300615604noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-6558324054135046872.post-68568474991038400132019-12-13T10:29:00.004-08:002021-10-19T06:12:37.317-07:00A hero of our time: : Ertugrul<div dir="ltr" style="text-align: left;" trbidi="on">
<div class="separator" style="clear: both; text-align: center;">
<a href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEgbLTjaJT7fJB3jfFZ9WmxpzO_5twM5zOCK-4DwDgmO25-bsMlDrYnR6960aA-8XkwwT7n2yOB1Kc1SVIzE1tPrW9UlwCj_vBsbeA_ZQGiPxx4zFJ5J8bel416yMxTVIKjv_683i4zjpRw/s1600/Ertugrul+2.jpg" imageanchor="1" style="margin-left: 1em; margin-right: 1em;"><img border="0" data-original-height="1107" data-original-width="1600" height="276" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEgbLTjaJT7fJB3jfFZ9WmxpzO_5twM5zOCK-4DwDgmO25-bsMlDrYnR6960aA-8XkwwT7n2yOB1Kc1SVIzE1tPrW9UlwCj_vBsbeA_ZQGiPxx4zFJ5J8bel416yMxTVIKjv_683i4zjpRw/s400/Ertugrul+2.jpg?imgmax=1600"
width="400" /></a></div>
<div class="separator" style="clear: both; text-align: center;">
<br /></div>
<div class="separator" style="clear: both; text-align: center;">
</div>
<div style="text-align: justify;">
Ertugrul According to Ottoman tradition, he was the son of either Günduz Alp or Suleyman Shah, leader of the Kayı tribe of Oghuz Turks, who fled from western Central Asia to Anatolia to escape the Mongol conquests. According to this legend, after the death of his father, Ertuğrul and his followers entered the service of the Seljuks of Rum, for which he was rewarded with dominion over the town of Söğüt on the frontier with the Byzantine Empire. This set off the chain of events that would ultimately lead to the founding of the Ottoman Empire. Like his son, Osman, and their descendants, Ertuğrul is often referred to as a Ghazi, a heroic champion fighter for the cause of Islam.<br />
<br /></div>
<div style="text-align: justify;">
<div class="separator" style="clear: both; text-align: center;">
<a href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEgaHlKE1cHWWxRow9-RQ-EayhxyYDWuDDIsln1ONuQyu6Cql177nGuFZw36N8lcqPal6GdQiqLItW_UeVXPBVtPWEvllxKUxv-krZ1qD35NVYM5q9MwUGun0MGXVJ9BR9uxnUPk9iIdZ6Y/s1600/Ertugrul.jpg" imageanchor="1" style="margin-left: 1em; margin-right: 1em;"><img border="0" data-original-height="420" data-original-width="645" height="260" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEgaHlKE1cHWWxRow9-RQ-EayhxyYDWuDDIsln1ONuQyu6Cql177nGuFZw36N8lcqPal6GdQiqLItW_UeVXPBVtPWEvllxKUxv-krZ1qD35NVYM5q9MwUGun0MGXVJ9BR9uxnUPk9iIdZ6Y/s400/Ertugrul.jpg" width="400" /></a></div>
<br /></div>
<div style="text-align: justify;">
<b>Biography</b></div>
<div style="text-align: justify;">
Nothing is known with certainty about Ertuğrul's life, other than that he was the father of Osman; historians are thus forced to rely upon stories written about him by the Ottomans more than a century later, which are of questionable accuracy. According to these later traditions, Ertuğrul was chief of the Kayı tribe of Oghuz Turks. As a result of his assistance to the Seljuks against the Byzantines, Ertuğrul was granted lands in Karaca Dağ, a mountainous area near Angora (now Ankara), by Ala ad-Din Kay Qubadh I, the Seljuk Sultan of Rûm. One account indicates that the Seljuk leader's rationale for granting Ertuğrul land was for Ertuğrul to repel any hostile incursion from the Byzantines or other adversary. Later, he received the village of Söğüt which he conquered together with the surrounding lands. That village, where he later died, became the Ottoman capital under his son Osman I. Ottoman historians have differing opinions on whether Ertuğrul had two or possibly three other sons in addition to Osman: Gündüz Bey, and Saru Batu Savcı Bey or Saru Batu and Savcı Bey.</div>
<div style="text-align: justify;">
<br /></div>
<div style="text-align: justify;">
<b>Legacy</b></div>
<div style="text-align: justify;">
A tomb and mosque dedicated to Ertuğrul is said to have been built by Osman I at Söğüt, but due to several rebuildings nothing certain can be said about the origin of these structures. The current mausoleum was built by sultan Abdul Hamid II in the late nineteenth century. The town of Söğüt celebrates an annual festival to the memory of the early Osmans. The Ottoman Navy frigate Ertuğrul, launched in 1863, was named after him. The Ertuğrul Gazi Mosque in Ashgabat, Turkmenistan, completed in 1998, is also named in his honor.</div>
<div style="text-align: justify;">
<br /></div>
<div style="text-align: justify;">
Courtesy : Wikipedia</div>
</div>
KHAWAJA UMER FAROOQhttp://www.blogger.com/profile/11468318155300615604noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-6558324054135046872.post-52728786275120999722019-12-13T10:26:00.003-08:002021-10-19T06:12:52.124-07:00سلطان محمد الپ ارسلان : ایک متقی اور پرہیز گار حکمران<div dir="ltr" style="text-align: left;" trbidi="on">
<div class="separator" style="clear: both; text-align: center;">
<a href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEg85onJPPxslgXzu-Jsluore1n12fyj3qpciZ6Ec_qsUbW9yvS-qhsynXglLDdGibIUUbkHp-9HwsSIsLKKbgO-ELLJVCBrjg_LQSa7TG6gdTJSPHtdFzMJrHq6gvQdF09LQid2dIj0IaE/s1600/Alp+Arslan.jpg" imageanchor="1" style="margin-left: 1em; margin-right: 1em;"><img border="0" data-original-height="1067" data-original-width="1600" height="266" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEg85onJPPxslgXzu-Jsluore1n12fyj3qpciZ6Ec_qsUbW9yvS-qhsynXglLDdGibIUUbkHp-9HwsSIsLKKbgO-ELLJVCBrjg_LQSa7TG6gdTJSPHtdFzMJrHq6gvQdF09LQid2dIj0IaE/s400/Alp+Arslan.jpg?imgmax=1600"
width="400" /></a></div>
<h2 dir="rtl" style="text-align: right;">
الپ ارسلان نے اپنے چچا طغرل بیگ کی وفات کے بعد زمام اقتدار اپنے ہاتھ میں لی۔ اگرچہ اقتدار کی خاطر ملک میں کچھ جھگڑے ہوئے لیکن الپ ارسلان نے ان تنازعات پر بروقت قابو پا کر حالات کو اپنی گرفت میں لے لیا۔ الپ ارسلان اپنے مرحوم چچا طغرل بیگ کی طرح ایک نہایت مدبر، تجربہ کار لیڈر اور جرأت مند شخصیت کا مالک مخلص قائد تھا۔ اس نے ملکی سرحدوں کو وسیع کرنے کے لیے ایک نہایت ہی دانشمندانہ پالیسی اختیار کی، جو علاقے سلجوقی سلطنت کے زیرنگیں تھے، پہلے ان کے استحکام کو یقینی بنایا اور اس کے بعد بیرونی دنیا کی طرف پیش قدمی کی۔ سلطان الپ ارسلان جہاد فی سبیل اللہ اور اپنی پڑوسی مسیحی سلطنتوں میں اسلام کی اشاعت کے لیے بے قرار رہتا تھا۔ اس کی ہمیشہ سے یہ کوشش رہی کہ ارمن اور روم کے علاقے اسلامی قلم رو میں شامل ہوں۔ </h2>
<h2 dir="rtl" style="text-align: right;">
<div class="separator" style="clear: both; text-align: center;">
<a href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEh5s-pe8MdijZdnngPzdUz6dQrQRgIMF5XDJ83cnMcP2HEMeZ51KNcbh_M-VDWN5WB_xR9hXaV113xXiYsmpHzMzE04oBEbO_3vjZS6YIATaDjZrFTge_00nio7CjjHmBIAA9L2yU1J-kM/s1600/Alp+Arslan+2.jpg" imageanchor="1" style="margin-left: 1em; margin-right: 1em;"><img border="0" data-original-height="1067" data-original-width="1600" height="266" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEh5s-pe8MdijZdnngPzdUz6dQrQRgIMF5XDJ83cnMcP2HEMeZ51KNcbh_M-VDWN5WB_xR9hXaV113xXiYsmpHzMzE04oBEbO_3vjZS6YIATaDjZrFTge_00nio7CjjHmBIAA9L2yU1J-kM/s400/Alp+Arslan+2.jpg" width="400" /></a></div>
</h2>
<h2 dir="rtl" style="text-align: right;">
الپ ارسلان اپنی مملکت کی سرحدوں کو وسیع کرنے سے پہلے سات سال کے عرصہ تک اپنی مملکت کے دور دراز علاقوں کے حالات کا جائزہ لیتا رہا اور جب ان علاقوں میں امن و امان کی صورت حال سے مطمئن ہو گیا تو اپنے عظیم مقاصد کو پائے تکمیل تک پہنچانے کے لیے پلاننگ شروع کر دی۔ ان کے سامنے اب ایک ہی ہدف تھا۔ سلجوقی سلطنت کے پڑوس میں واقع مسیحی علاقوں کو فتح کرنا، فاطمی دولت کے اقتدار کو ختم کرنا اور تمام اسلامی دنیا کو عباسی خلفا اور سلجوقی اقتدار کے جھنڈے کے نیچے متحد کرنا۔ الپ ارسلان نے اپنے منصوبے کو عملی جامہ پہنانے کے لیے ایک بہت بڑا لشکر تیار کیا اور اس لشکر کی قیادت کرتا ہوا ارمن اور جارجیا کی طرف روانہ ہوا۔ یہ علاقے بہت جلد ان کے ہاتھوں فتح ہوئے۔</h2>
<h2 dir="rtl" style="text-align: right;">
الپ ارسلان آگے بڑھا اور شام کے شمالی علاقے پر یورش کی، حلب میں مرداسی حاکم تھا۔ اس سلطنت کی بنیاد 1023ء میں صالح بن مرداس نے رکھی۔ الپ ارسلان نے مرداسی سلطنت کا محاصرہ کر لیا اور اس سلطنت کے فرمانروا محمود بن صالح بن مرداس کو مجبور کیا کہ وہ مصر کے فاطمی خلیفہ کی بجائے عباسی خلیفہ کی حکومت کو تسلیم کرے اور لوگوں کو اس حکومت کے احکامات کا پابند کرے۔ اس کے بعد الپ ارسلان نے ایک ترکی نژاد قائد اتنسزبن اوق خوارزمی کو جنوبی شام پر حملہ کرنے کے لیے بھیجا، خوارزمی نے فاطمیوں سے رملہ اور بیت المقدس چھین لیے لیکن عسقلان پر قبضہ نہ ہو سکا جسے مصری حدود میں داخلہ کے لیے ایک بہت بڑے دروازے کی حیثیت حاصل تھی۔ الپ ارسلان کی فتوحات نے رومی شہنشاہ ڈومانوس ڈیوجیس کو آتش زیرِپا کر دیا اور اس نے پختہ ارادہ کر لیا کہ وہ ہر قیمت پر اپنی شہنشاہیت کا دفاع کرے گا۔ سو اس مقصد کی خاطر اس نے اپنی پوری فوج سلجوقیوں کے خلاف جنگ میں جھونک دی۔ </h2>
<h2 dir="rtl" style="text-align: right;">
رومی اور سلجوقی فوجوں میں کئی خونریز معرکے ہوئے۔ ’’ملاذکرد‘‘ کا معرکہ ان سب میں زیادہ اہم ہے جو اگست 1070ء کو برپا ہوا۔ ابن کثیر لکھتے ہیں ’’اور اس معرکے میں روم کا بادشاہ ڈومانوس پہاڑ کی مانند لشکروں کو لے کر روانہ ہوا۔ ان لشکروں میں روم، روس، برطانیہ اور کئی دوسرے ملکوں کے سپاہی شریک تھے۔ ڈومانوس کی جنگی تیاریاں بھی خوب تھیں۔‘‘ الپ ارسلان کا ایک مختصر سے لشکر، جس کی تعداد 15 ہزار سے زیادہ نہیں تھی، کی مدد سے شہنشاہ روم ڈومانوس کے ایک لاکھ سپاہیوں پر مشتمل بہت بڑے لشکر کو شکست فاش سے دوچار کرنا کوئی معمولی واقعہ نہیں تھا۔ اس واقعہ نے رومیوں کی کمر توڑ دی۔ الپ ارسلان ایک متقی اور پرہیز گار انسان تھا۔ فتح مادی اور معنوی ہر دو اسباب سے استفادہ کرتا تھا۔ اسلام کا یہ طبل جلیل اور عظیم سپہ سالار ایک باغی کے ہاتھوں شہید ہوا۔ اس باغی کا نام یوسف خوارزمی تھا۔ آپ کا سن وصال 1072ء ہے۔ آپ مرو کے شہر میں اپنے باپ کے پہلو میں دفن ہوئے اور ملک شاہ کو اپنے پیچھے جانشین چھوڑا۔</h2>
<h2 dir="rtl" style="text-align: right;">
علی محمد الصلابی</h2>
</div>
KHAWAJA UMER FAROOQhttp://www.blogger.com/profile/11468318155300615604noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-6558324054135046872.post-36676052255677076722019-10-29T05:53:00.001-07:002021-07-21T06:49:28.863-07:00 سلطنت عثمانیہ کیوں زوال پذیر ہوئی؟ <div dir="ltr" style="text-align: left;" trbidi="on">
<div class="separator" style="clear: both; text-align: center;">
<a href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEg13EYT7r72bWbhTmObm-UKeute5UOhmEAw14hGfW1LtofmSvkgMFl20wYguC4ARw-pLeDGyoJKDtvz0aJEka332W8Wf0hByBqKvnNi0hFmUag-1sCU6nsYW8UWxnk9ku8CgGouPuguRVc/s1600/Ottoman+Empire.jpg" imageanchor="1" style="margin-left: 1em; margin-right: 1em;"><img border="0" data-original-height="640" data-original-width="960" height="266" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEg13EYT7r72bWbhTmObm-UKeute5UOhmEAw14hGfW1LtofmSvkgMFl20wYguC4ARw-pLeDGyoJKDtvz0aJEka332W8Wf0hByBqKvnNi0hFmUag-1sCU6nsYW8UWxnk9ku8CgGouPuguRVc/s400/Ottoman+Empire.jpg?imgmax=1600" width="400" /></a></div>
<h2 dir="rtl" style="text-align: right;">
نیسویں صدی کے آخری عشروں میں اندرونی ریشہ دوانیوں اور بیرونی سازشوں <div class="separator" style="clear: both; text-align: center;">
</div>
کے نتیجہ میں سلطنت عثمانیہ کی جڑیں کمزور ہو چکی تھیں، اپنے انتہائی عروج کے دور میں یہ سلطنت بڈاپسٹ سے بغداد تک اور کریمیا سے نیل کے ساحل تک پھیلی ہوئی تھی۔ یہ نہ صرف جدید عہد کی سب سے بڑی مسلم ریاست تھی بلکہ اس کا شمار تاریخ کی عظیم ترین اور مدت کے اعتبار سے طویل ترین مسلم مملکتوں میں کیا جا سکتا ہے۔ تقریباً سوا چھ سو برسوں میں 36 سلاطین حکمران رہے۔ سلطنت عثمانیہ بنیادی طور پر فوجی بادشاہت تھی۔ اس دور میں اگرچہ مختلف شعبوں میں بعض اچھے کام بھی ہوئے، رفاہی اداروں اور فنونِ لطیفہ نے خاصی ترقی کی، مگر سلطنت کی ہیئت شخصی حکمرانی اور مطلق العنانی کی تھی۔ </h2>
<h2 dir="rtl" style="text-align: right;">
اس میں عرب، شامی، عراقی، مصری، بربر، کرد، آرمینی، سلاو، یونانی، البانی…غرضیکہ یورپ اور مغربی ایشیا کی بیشتر قومیں شامل تھیں۔ ان سب کے اپنے اپنے رسم و رواج، تہذیب و تمدن، عقائد اور زبانیں تھیں۔ اس سخت گیر نظام کا واسطہ جب یورپ میں جغرافیائی قومیتوں کے ابھرتے ہوئے تصور سے پڑا تو سلطنتِ عثمانیہ کی بنیادیں ہل کر رہ گئیں۔ عرب علاقوں میں سب سے پہلے شمالی افریقہ نے سلطنت عثمانیہ سے علیحدگی اختیار کی لیکن فرانس نے فوج کشی کر کے الجزائر پر قبضہ کر لیا اور بعدازاں اسے باقاعدہ اپنے ملک کا حصہ قرار دے دیا۔ فرانس اس خطے کو جو اہمیت دیتا تھا اس کا ایک ہلکا سا اندازہ اس امر سے ہو سکتا ہے کہ جب دوسری جنگ عظیم کے دوران 1942ء میں امریکا نے الجزائر میں اپنی فوجیں اتاریں تو فرانسیسی وزیرخارجہ نے اس پر امریکہ سے باضابطہ احتجاج کیا تھا۔ <div class="separator" style="clear: both; text-align: center;">
<a href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEgKMd-OlrFsdmdXSU-qbfrTpuXO5IWrkvbItsKzsCJVPmfEF_OQ0EQkFOROmgsK5_uMfiqQRMkFwGwnZqhrcxhea5fRkUIiMgzEtwdKhdWyZifDZ8r-omWi9Lq-FmyAazeJ_gfUJOMNIpk/s1600/Ottoman+Empire+2.jpg" imageanchor="1" style="margin-left: 1em; margin-right: 1em;"><img border="0" data-original-height="635" data-original-width="960" height="263" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEgKMd-OlrFsdmdXSU-qbfrTpuXO5IWrkvbItsKzsCJVPmfEF_OQ0EQkFOROmgsK5_uMfiqQRMkFwGwnZqhrcxhea5fRkUIiMgzEtwdKhdWyZifDZ8r-omWi9Lq-FmyAazeJ_gfUJOMNIpk/s400/Ottoman+Empire+2.jpg" width="400" /></a></div>
</h2>
<h2 dir="rtl" style="text-align: right;">
الجزائر کے بعد فرانس نے تیونس کو اپنی توسیع پسندانہ پالیسی کا شکار بنایا۔ 1881 میں اس پر قبضہ کر کے الجزائر کی طرح اس ملک میں بھی عربی کی جگہ فرانسیسی کو سرکاری زبان کی حیثیت سے نافذ کر دیا۔ خطے کے دوسرے ملکوں کی طرح مصر بھی ایک عرصے تک سلطنت عثمانیہ کے زیرنگیں رہا۔ لیکن قسطنطنیہ کے حکمرانوں نے براہ راست کبھی دل چسپی نہیں لی۔ دارالخلافہ کی عدم دل چسپی، درباری سازشوں اور عمالِ حکومت کی بے حسی کے نتیجے میں مصری عوام کی زندگی اجیرن ہو کر رہ گئی۔ 1619ء کے طاعون میں کوئی ساڑھے تین لاکھ افراد لقمہ اجل بنے۔ 1769ء میں علی بے نامی ایک مقامی سردار نے سلطنت عثمانیہ کے خلاف علم بغاوت بلند کر کے مصر کی آزادی کا اعلان کر دیا۔ یہ وہ وقت تھا جب سلطان قسطنطنیہ روس کے خلاف نبردآزما تھا۔ </h2>
<h2 dir="rtl" style="text-align: right;">
علی بے نے آگے بڑھ کر شام اور عرب پر قبضہ کر لیا۔ 1798ء میں نپولین بونا پارٹ ایک بڑی فوج کے ساتھ اسکندریہ میں اترا لیکن برطانیہ کے ہاتھوں پے در پے ہزیمت اٹھانے کے بعد مغربی ایشیا سے فرانسیسی عمل دخل کا مکمل خاتمہ ہو گیا۔ نپولین کو شکست دینے والی فوج میں محمد علی نامی ایک نوجوان افسر بھی شامل تھا۔ بعد میں یہی شخص جدید مصر کا بانی کہلایا۔ شام، لبنان اور میسوپوٹامیہ ایک طویل عرصہ تک سلطنت عثمانیہ کا حصہ رہے۔ پھر یورپی طاقتوں کی مداخلت کی وجہ سے ترکوں کا اثر آہستہ آہستہ کم ہوتا گیا۔ لبنان اور شام کے معاملات میں فرانس نے براہ راست عمل دخل حاصل کر لیا۔ </h2>
<h2 dir="rtl" style="text-align: right;">
جزیرہ نما عرب کا جنوب مشرقی ساحل پہلے پرتگیزی اور بعد میں برطانوی تسلط میں رہا۔ بیسویں صدی کے آغاز پر ترکی کی سلطنت عثمانیہ تیزی سے روبہ زوال تھی۔ اس صدی کے پہلے عشرے میں اسے بلقان کے علاقوں سے ہاتھ دھونا پڑا۔ اسی اثنا میں پہلی جنگ عظیم شروع ہو گئی۔ ترکی نے جرمنی کا ساتھ دیا اور نتیجتاً شکست کھائی۔ اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے یورپی استعماری طاقتوں نے سلطنت عثمانیہ کو اس کے بیشتر مقبوضات سے محروم کر دیا اور بالآخر سلطنت کا خاتمہ ہو گیا۔</h2>
<h2 dir="rtl" style="text-align: right;">
خواجہ محمود جاوید</h2>
</div>
KHAWAJA UMER FAROOQhttp://www.blogger.com/profile/11468318155300615604noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-6558324054135046872.post-60726593577807644892019-08-01T04:59:00.002-07:002021-10-19T04:40:07.303-07:00مغرب کے عظیم جرنیل ، جن کی کی صلاحیتوں کو آج بھی تسلیم کیا جاتا ہے <div dir="ltr" style="text-align: left;" trbidi="on">
<div class="separator" style="clear: both; text-align: center;">
</div>
<div class="separator" style="clear: both; text-align: center;">
</div>
<div class="separator" style="clear: both; text-align: center;">
<a href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEjTuZsnDIG2qjlOHiTOQd4xuFb7Iey5HsrTeWZ5iExPcGLqt6arsw7loEYB0XYVwfJXUysSvA8U_IQ6lPtxXDYgBm_ijU23szX2AsiDXcFYkCpOY9ZODqHYdL6z85DY0PV364YqGButR3U/s1600/Great+Generals.jpg" imageanchor="1" style="margin-left: 1em; margin-right: 1em;"><img border="0" data-original-height="483" data-original-width="960" height="201" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEjTuZsnDIG2qjlOHiTOQd4xuFb7Iey5HsrTeWZ5iExPcGLqt6arsw7loEYB0XYVwfJXUysSvA8U_IQ6lPtxXDYgBm_ijU23szX2AsiDXcFYkCpOY9ZODqHYdL6z85DY0PV364YqGButR3U/s400/Great+Generals.jpg?imgmax=1600" width="400" /></a></div>
<h2 dir="rtl" style="text-align: right;">
آج کے جدید مشینی دور میں جنگ و جدل کی پالیسیاں اور طور طریقے بدل چکے ہیں۔ اس حوالے سے بعض اوقات وہ لوگ اور ادارے فیصلے کرتے ہیں جو فوجی حکمت عملیوں سے اچھی طرح واقف نہیں ہوتے ۔ یوں جرنیلوں کا کردار واضح نہیں ہوتا۔ آج دنیا کی بڑی سے بڑی فوج جو ہتھیاروں سے لیس ہوتی ہے اور اس کے پاس بہترین جنگی حکمت عملی بھی ہوتی ہے، وہ چیزوں کو منطقی انداز میں دیکھتی ہے، وہ اشیا کی نقل و حمل کے بارے میں بہت علم رکھتی ہے، مگر وہ صرف ایک شخص کی غیرمعمولی قابلیت سے شکست کھا جاتی ہے اور وہ شخص ہوتا ہے مخالف فوج کا جرنیل۔ ہم ذیل میں مغرب کے ان 9 بڑے جرنیلوں کا ذکر کر رہے ہیں جنہوں نے اپنے اپنے دور میں بہترین جنگی حکمت عملی کے ذریعے کارہائے نمایاں سرانجام دئیے۔</h2>
<h2 dir="rtl" style="text-align: right;">
فریڈرک دی گریٹ پروشیا کا فریڈرک دوم جدید جنگ و جدل کا طالب علم تھا اور اٹھارہویں صدی کے آخر میں اس نے جدید جنگ کے حوالے سے فوجیوں کی رہنمائی کرنا شروع کر دی۔ اس نے آسٹریا کے خلاف مسلسل جنگیں لڑیں۔ آسٹریا اس وقت رومی سلطنت کی بڑی طاقت تھا۔ فریڈرک لڑائیوں میں فوجیوں کی براہ راست قیادت کرتا تھا۔ فریڈرک ایک ایسی قوت کا نام تھا جسے آج بھی تسلیم کیا جاتا ہے۔ <div class="separator" style="clear: both; text-align: center;">
<a href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEi9RCGQDQW8Wh7whJ9uuFWfk8xO3Xh2RdzUeyNB8BtWDlHVwik87Q62p9SjhY17XfgSsTVVoc-cJPDhPoRiNHxAbGeKlVfrcks009FOe7FsPRmKBgC6WRQJPKEz-_Y5U-B_kNtHwHUXcDI/s1600/Great+Generals+2.jpg" imageanchor="1" style="margin-left: 1em; margin-right: 1em;"><img border="0" data-original-height="640" data-original-width="960" height="266" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEi9RCGQDQW8Wh7whJ9uuFWfk8xO3Xh2RdzUeyNB8BtWDlHVwik87Q62p9SjhY17XfgSsTVVoc-cJPDhPoRiNHxAbGeKlVfrcks009FOe7FsPRmKBgC6WRQJPKEz-_Y5U-B_kNtHwHUXcDI/s400/Great+Generals+2.jpg" width="400" /></a></div>
</h2>
<h2 dir="rtl" style="text-align: right;">
جارج ایس پیٹن جارج پیٹن دوسری جنگ عظیم میں اتحادی قوتوں کی سب سے متنازعہ شخصیت تھا۔ ہو سکتا ہے کہ پیٹن یہ سمجھتا ہو کہ وہ دور قدیم کے ان عظیم جنگجوؤں میں سے ایک ہے جنہوں نے دوبارہ جنم لیا۔ وہ آئرن ہاور کا استاد بھی رہا۔ دوسری جنگ عظیم کے دوران اس نے جرمن فوجیوں کی یلغار کا اسی انداز سے جواب دیا۔ بعض امور میں اس کا کردار متنازعہ رہا لیکن اس حقیقت سے کوئی انکار نہیں کر سکتا کہ اس جرنیل نے یورپ میں اتحادیوں کی فتح میں اہم کر دار ادا کیا۔ </h2>
<h2 dir="rtl" style="text-align: right;">
جون آف آرک فرانس کی اس جنگجو لڑکی نے صرف 19 برس کی عمر میں انگلینڈ کے خلاف کئی جنگیں لڑیں۔ کسان گھرانے کی یہ لڑکی دعویٰ کرتی تھی کہ اسے خدائی احکامات آتے ہیں۔ فرانس کا بادشاہ چارلس دوم جنگ ہار چکا تھا لیکن اس نوجوان خاتون نے فرانسیسیوں میں ایک نیا جذبہ پیدا کیا۔ آخر کار اسے انگریز فوجیوں نے پکڑ لیا اور زندہ جلا دیا۔ وہ بلا کی ذہین تھی اور اس کی تقریباً ہر جنگی حکمت عملی کامیاب ہوئی۔ </h2>
<h2 dir="rtl" style="text-align: right;">
جولیس سیزر جولیس سیزر کے بارے میں اگر یہ کہا جائے کہ وہ قابل ترین رومی جرنیل تھا تو یہ مبالغہ نہ ہو گا۔ اس نے رومی سلطنت کو وسیع کرنے کے لیے کئی علاقوں کو اپنے قبضے میں لیا۔ اس کی جنگی پالیسیاں ابھی تک فوجی اکیڈیمیوں میں پڑھائی جاتی ہیں۔ سیاسی اور ذاتی حوالے سے اس سے غداریاں کی گئیں اور اس کی زندگی کا خاتمہ ہو گیا۔ </h2>
<h2 dir="rtl" style="text-align: right;">
جارج واشنگٹن امریکہ کی انقلابی طاقتیں جب آزادی کیلئے برطانوی راج کے خلاف برسرپیکار تھیں تو اس وقت جارج واشنگٹن امریکہ کا سب سے قابل رہنما تھا۔ اگرچہ واشنگٹن کو اس کے ماتحتوں کی مکمل حمایت حاصل تھی جن میں اہم ترین بینڈرک آرنلڈ تھا جو ایک نہایت زیرک شخص تھا، لیکن واشنگٹن کی فوجی صلاحیتوں کا کوئی جواب نہیں تھا۔ واشنگٹن نے امریکی فوجیوں کو متحد کیا۔ اگر آرنلڈ غداری نہ کرتا تو آج اس کا نام امریکہ میں بڑے احترام سے لیا جاتا۔ واشنگٹن نے ٹرنٹن اور یارک ٹاؤن میں فتح حاصل کی۔ اسے دوبار امریکیوں نے اپنا صدر منتخب کیا۔ </h2>
<h2 dir="rtl" style="text-align: right;">
رابرٹ ای لی رابرٹ ای لی کو امریکہ کی خانہ جنگی کے حوالے سے یاد کیا جاتا ہے۔ اس نے کنفیڈریشن کی حامی قوتوں کو کئی مقامات پر شکست دی۔ وہ اپنے مخالفوں کو بہت زیادہ نقصان پہنچاتا لیکن اس کے اپنے فوجیوں کو کم سے کم نقصان ہوتا۔</h2>
<h2 dir="rtl" style="text-align: right;">
صلاح الدین ایوبی صلیبی جنگوں کے حوالے سے سب سے نمایاں نام صلاح الدین ایوبی کا ہے۔ اس نے یورپی حملوں کو بڑی کامیابی سے روکا۔ اس نے شام اور مصر کسی بڑی مشکل کے بغیر فتح کیا اور بیت المقدس کو آزاد کرایا۔ اس کے حریف بھی اس کا بڑا احترام کرتے تھے۔ چونکہ وہ یورپی سرزمین پر بھی سرگرم رہا اس لیے اس کا نام اس فہرست میں شامل کیا گیا ہے۔ </h2>
<h2 dir="rtl" style="text-align: right;">
ہنی بال بارکا روم جس مخالف سے سب سے زیادہ خوف کھاتا تھا وہ ہنی بال بارکا تھا۔ اس جرنیل کو اس کے والد نے اسی مقصد کے لیے بڑا کیا تھا کہ وہ رومیوں کے خلاف لڑے۔ وہ جبری امن کا حامی تھا۔ اس نے پرانے جنگی حربے ترک کر کے جدید طریقے اختیار کیے۔ اس نے بہت کامیابیاں حاصل کیں اور ہزاروں رومیوں کو موت کی نیند سلا دیا لیکن آخر کار اسے سسپیو افریکانس کے ہاتھوں شکست ہوئی۔ </h2>
<h2 dir="rtl" style="text-align: right;">
نپولین بونا پارٹ نپولین نے وہ فرانسیسی سلطنت قائم کی جو میڈرڈ سے ماسکو اور اوسلو سے قاہرہ تک پھیلی ہوئی تھی۔ اس نے بہت سے ممالک فتح کیے لیکن آخر کار واٹرلو میں اسے شکست ہو گئی۔ اسے انگریزوں نے ایک جزیرے میں قید کر دیا جہاں کچھ عرصے بعد اس کی موت واقع ہو گئی۔</h2>
<h2 dir="rtl" style="text-align: right;">
عبدالحفیظ ظفر</h2>
</div>
KHAWAJA UMER FAROOQhttp://www.blogger.com/profile/11468318155300615604noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-6558324054135046872.post-35744129522041962202019-07-25T03:09:00.004-07:002021-10-19T06:13:06.662-07:00امیر تیمور نے جنگِ انقرہ میں عثمانیوں کو کیسے شکست دی ؟<div dir="ltr" style="text-align: left;" trbidi="on">
<div class="separator" style="clear: both; text-align: center;">
<a href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEjpAf6M5O_uLgiKvmxZ5BrPYYzkNm_TpLHh6W1u5NInE1YYvWEHM964sGv_CJCbhma1RdmE7JKB_94XimKQnQmLrAm3T3FSNM-d9DqZM539Ri_6yp9SfVueRCiZJK3-PVuRoFuD6WFSq7Q/s1600/Amir+Timur.jpg" imageanchor="1" style="margin-left: 1em; margin-right: 1em;"><img border="0" data-original-height="640" data-original-width="960" height="266" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEjpAf6M5O_uLgiKvmxZ5BrPYYzkNm_TpLHh6W1u5NInE1YYvWEHM964sGv_CJCbhma1RdmE7JKB_94XimKQnQmLrAm3T3FSNM-d9DqZM539Ri_6yp9SfVueRCiZJK3-PVuRoFuD6WFSq7Q/s400/Amir+Timur.jpg?imgmax=1600"
width="400" /></a></div>
<h2 dir="rtl" style="text-align: right;">
جنگِ نکوپولس میں سلطنتِ عثمانیہ کے سلطان بایزید اول نے صلیبی فوج کے خلاف شاندار فتح پائی لیکن اس کے تقریباً چھ برس بعد، 20 جولائی 1402ء کو، جنگِ انقرہ میں اسے امیر تیمور کے ہاتھوں ہزیمت کا سامنا کرنا پڑا۔ امیر تیمور نے اپنے دور کی بہت بڑی طاقت کو بہتر حکمت عملی سے شکست دی۔ وہ کامیاب جنگجو، سپاہ سالار اور حملہ آور تھا۔ اس نے یکے بعد دیگرے کئی فتوحات حاصل کیں اور ایک وسیع سلطنت قائم کر لی۔ البتہ مقبوضہ علاقوں میں پائیدار ریاستی ڈھانچہ قائم کرنے میں ناکام رہا۔ غالباً اسی لیے جنگ کے صرف تین سال بعد، جب اس کا انتقال ہوا، تیموری سلطنت بکھرنے لگی اور جلد دنیا کے نقشے سے غائب ہو گئی۔ دوسری جانب سلطنتِ عثمانیہ نے اس دھچکے کے بعد خود کو سنبھال لیا اور آئندہ دو سے تین صدیوں تک ایک بڑی طاقت کے طور پر نمایاں رہی۔ </h2>
<h2 dir="rtl" style="text-align: right;">
امیر تیمور نے اس علاقے میں اپنی سلطنت کی بنیاد رکھی جہاں آج ازبکستان ہے۔ قوت پانے کے بعد مغرب اور شمال مغرب کی طرف فتوحات کرتی تیموری فوج بحیرہ کیسپین، دریائے ارل اور یورپ کے سب سے بڑے دریا ولگا تک جا پہنچی۔ جنوب اور جنوب مغرب میں یہ سلسلہ فارس سے شمالی عراق اور شام تک گیا۔ اس کی فوج کے قدم برصغیر تک بھی آئے۔ اس صورتِ حال میں پہلے سے موجود طاقت ور عثمانی اور ابھرتی تیموری سلطنت کے مابین کشیدگی اس نہج پر آن پہنچی کہ تصادم ناگزیر خیال کیا جانے لگا۔ امیر تیمور نے اپنے بڑے لشکر کے ساتھ اناطولیہ کا رخ کیا۔ تب وہ جنگوں اور مہمات میں تین دہائیوں سے زائد عرصہ بِتا چکا تھا۔ <div class="separator" style="clear: both; text-align: center;">
<a href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEhS3Z7s2E8IR-1ZTssx0dYIZgOCD8Tx-1ZffeNFXGjI_wZw0lGVdyCI77hKNg_UX2B7dMAPoqsZFv5SJ-lrqscj1yojAx_Y-en43PdMxZc49TWnBbIphJBzaNJ1o-AJxJ6ZX-Gmq-1Qx6g/s1600/Amir+Timur+2.jpg" imageanchor="1" style="margin-left: 1em; margin-right: 1em;"><img border="0" data-original-height="720" data-original-width="540" height="400" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEhS3Z7s2E8IR-1ZTssx0dYIZgOCD8Tx-1ZffeNFXGjI_wZw0lGVdyCI77hKNg_UX2B7dMAPoqsZFv5SJ-lrqscj1yojAx_Y-en43PdMxZc49TWnBbIphJBzaNJ1o-AJxJ6ZX-Gmq-1Qx6g/s400/Amir+Timur+2.jpg" width="300" /></a></div>
</h2>
<h2 dir="rtl" style="text-align: right;">
بایزید اول نے بازنطینی سلطنت کے دارالحکومت قسطنطنیہ کا محاصرہ کر رکھا تھا۔ جب اسے معلوم ہوا کہ مشرقی اناطولیہ سے تیموری فوج رواں دواں ہے تو وہ محاصرہ چھوڑ کر موسمِ گرما میں اس کی جانب روانہ ہوا۔ تیموری فوج اندازاً ایک لاکھ 40 ہزار تھی جس میں زیادہ تر گھڑ سوار تھے۔ اس میں 32 جنگی ہاتھی بھی شامل تھے۔ بایزید اول کی فوج تقریباً 85 ہزار پر مشتمل تھی۔ عثمانی لشکر میں دائیں جانب شہزادہ سلیمان کی سربراہی میں گھڑ سوار اناطولی ’’سپاہی‘‘ اور تاتاری تھے۔ وسط میں ینی چری اور اعلیٰ تربیت یافتہ سپاہی تھے جن کی قیادت بایزید اول اور اس کے بیٹے چلبی محمد کے ہاتھ میں تھی۔ بائیں جانب سربیائی حاکم سٹیفن لازارویک کی رہنمائی میں دستے صف بستہ تھے۔ </h2>
<h2 dir="rtl" style="text-align: right;">
میدانِ جنگ تک پہنچتے عثمانی فوج گرمی، پیاس اور تھکاوٹ سے نڈھال ہو چکی تھی۔ بایزید اول تیموری حملے سے تنگ آ چکا تھا اور مقابلے کی دھن سر پر سوار تھی، اس لیے اس نے افواج کوآرام کا وقت بھی نہ دیا۔ بایزید اول کو جرنیلوں نے صلاح دی کہ دفاعی حکمت عملی اختیار کرتے ہوئے گرم موسم اورجغرافیے کی جان کار کا فائدہ اٹھایا جائے۔ سلطان، جسے یلدرم (آسمانی بجلی) کا لقب ملا تھا، نے مشورہ رد کر دیا اور حملے کے لیے آگے بڑھا۔ دوسری طرف روایت کے برعکس امیر تیمور نے دفاعی حکمتِ عملی اپنائی۔ تلاش پر عثمانی سپاہ کو تیموری فوج نہ ملی۔ وہ خفیہ طور پر جنوب مشرق کی جانب چلی گئی اور آرام بھی کر لیا۔ وہ گھوم کر عثمانی سپاہ کے پیچھے آن کھڑی ہوئی۔ </h2>
<h2 dir="rtl" style="text-align: right;">
تیموری فوج عین اسی مقام پر براجمان ہو گئی جہاں پہلے عثمانی لشکر تھا۔ انہوں نے ترک کیے جانے والے خیموں اور پانی کے ذخیروں پر قبضہ کر لیا۔ تیموری فوج میں مرکزی حصے کی کمان تیمور کے ہاتھ میں تھی اور اس کے بیٹے میران اور شاہ رخ بالترتیب دائیں اور بائیں جانب کے دستوں کی کمان کر رہے تھے۔ اس کا بھتیجا ہراول دستے کی قیادت کر رہا تھا۔ عثمانیوں کی جانب سے جنگ کا آغاز بڑے حملے کی صورت میں ہوا۔ اس کا جواب گھوڑوں پر سوار تیراندازوں نے تیر کی بارش سے دیا۔ یہ غیر متوقع تھا۔ ہزاروں مارے گئے اور بہت سوں نے امیر تیمور کے آگے ہتھیار ڈال دیے۔ سربیائی دستوں نے ایسا بھاری لباس پہن رکھا تھا جو تیروں سے محفوظ رکھ سکتا تھا۔</h2>
<h2 dir="rtl" style="text-align: right;">
وہ بایزید اول کے ایک بیٹے کو بچا کر قسطنطنیہ لے گئے۔ تیموری پانی کا رخ عثمانی فوج سے دور کر چکے تھے ، جس کی وجہ سے وہ پیاس سے نڈھال ہوئے جا رہی تھی۔ تھکی ہوئی اورپیاسی عثمانی فوج بالآخر بکھر گئی۔ اس میں ایک کردار ان تاتاری دستوں کا تھا جنہوں نے عین جنگ کے موقع پر وفاداری تبدیل کی۔ بایزید اول نے نزدیکی پہاڑوں میں پناہ لی۔ تاہم تیموریوں نے پیچھا کر کے اسے گرفتار کر لیا۔ کہا جاتا ہے کہ تیمور نے سلطان کو سونے کے پنجرے میں قید کیا اور کچھ عرصہ بعد وہ دوران قید جان کی بازی ہار گیا۔ وہ واحد عثمانی سلطان تھا جو دشمن کے ہاتھوں قید ہوا۔</h2>
<h2 dir="rtl" style="text-align: right;">
رضوان عطا</h2>
</div>
KHAWAJA UMER FAROOQhttp://www.blogger.com/profile/11468318155300615604noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-6558324054135046872.post-22879821402123348282019-06-13T05:37:00.002-07:002021-07-21T06:50:38.802-07:00ٹیپو سلطان کی ریاست <div dir="ltr" style="text-align: left;" trbidi="on">
<div class="separator" style="clear: both; text-align: center;">
<a href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEh5A9mG232IWBgBJzdEBZ3OQP-Rs40BM7_0my7dY6xfNkCYr64gUePkub-a_VpqMol1QAWvbYJGRpFGXXazKQAuHgEg337ViooqoUG5RJA9s70d0MOZ1UHygCWVOev37O1QYz3nqoI1TMU/s1600/Tipu+Sultan.jpg" imageanchor="1" style="margin-left: 1em; margin-right: 1em;"><img border="0" data-original-height="768" data-original-width="1024" height="300" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEh5A9mG232IWBgBJzdEBZ3OQP-Rs40BM7_0my7dY6xfNkCYr64gUePkub-a_VpqMol1QAWvbYJGRpFGXXazKQAuHgEg337ViooqoUG5RJA9s70d0MOZ1UHygCWVOev37O1QYz3nqoI1TMU/s400/Tipu+Sultan.jpg?imgmax=1600"
width="400" /></a></div>
<h2 dir="rtl" style="text-align: right;">
میسور کے تاریخی مقامات میں ایک میسور پیلس ہے۔ دراصل اس کا تعلق اسی بادشاہت سے ہے جو 1565 میں قائم ہوئی تھی اور آزادی کے بعد تک قائم رہی۔ ٹیپو سلطان کی شہادت کے بعد بھی انگریزوں نے اس فیملی کی بادشاہت کو کوئی نقصان نہیں پہنچایا، تمام تر اختیارات انگریزوں کے قبضے میں تھے لیکن برائے نام اس فیملی کی بادشاہت برقرار تھی۔ ان کا قلعہ میسور پیلس کہلاتا ہے۔ برائے نام یہ بادشاہت آج بھی برقرار ہے اور یہ جگہ اسی فیملی کی ملکیت ہے۔ سال میں دو ماہ کیلئے یہاں انٹرنیشنل تجارتی میلہ لگتا ہے جہاں دنیا بھر کے تاجر اور زائرین آتے ہیں۔ لوگ بتاتے ہیں کہ ان دنوں میں میسور میں ازدحام ہوتا ہے۔ پائوں رکھنے کی کوئی جگہ نہیں ہوتی ہے۔</h2>
<h2 dir="rtl" style="text-align: right;">
میلے میں دنیا کی تمام نایاب چیزیں دستیاب ہوتی ہیں، بہت سے ممالک کی نایاب چیزیں اس علاقے میں بنائی بھی جاتی ہیں۔ اس موقع پر دسہرہ کے دس دنوں میں قلعہ کے مالک اور مہاراجہ کی آمد بھی ہوتی ہے، ان کا دربار لگتا ہے۔ لوگوں سے ملاقات ہوتی ہے، عام دنوں میں ودیار فیملی کے یہ بادشان لندن میں ہوتے ہیں۔ حکومت نے کئی مرتبہ اس محل کو اپنے تصر ف میں لینے کی کوشش کی لیکن ہائی کورٹ سے کامیابی نہیں مل سکی۔ یہ میسور کے خوبصورت اور تاریخی مقامات میں سے ایک ہے، چمنڈی پہاڑ کے دامن میں واقع ہے۔ قلعہ میں کئی ایک خوبصورت کمرے اور ہال بنے ہوئے ہیں، راجائوں کے مجسمے نصب ہیں، چاندنی اور سونے کے بنے دروازے ، کرسی اور دیگر چیزوں کو برقرار رکھا گیا ہے۔ چالیس روپے کا یہاں کا ٹکٹ ہے، داخل اور خارج کا راستہ الگ الگ ہے۔ </h2>
<h2 dir="rtl" style="text-align: right;">
<div class="separator" style="clear: both; text-align: center;">
<a href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEhvUTIMHMcrcK3qBz_B-AMWI_KZHGn5OVq3MztKzqIFMusjqFZSPdrNPDsNRm-MvcdF1UI4VYa8bhjXgIH7HSL37LJPSqba2cMx2g9m1EUdYKdXxFkaOfacqC4Yq4JMd1Vf1ZKuXgg3Vl4/s1600/Tipu+Sultan+2.jpg" imageanchor="1" style="margin-left: 1em; margin-right: 1em;"><img border="0" data-original-height="1200" data-original-width="1600" height="300" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEhvUTIMHMcrcK3qBz_B-AMWI_KZHGn5OVq3MztKzqIFMusjqFZSPdrNPDsNRm-MvcdF1UI4VYa8bhjXgIH7HSL37LJPSqba2cMx2g9m1EUdYKdXxFkaOfacqC4Yq4JMd1Vf1ZKuXgg3Vl4/s400/Tipu+Sultan+2.jpg" width="400" /></a></div>
</h2>
<h2 dir="rtl" style="text-align: right;">
میسور پیلس کی ایک اہم خصوصیت اس کا لائٹنگ سسٹم ہے۔ دسہرہ کے دس دنوں میں رات کے اوقات میں یہ لائٹ جلتی ہے جبکہ عام دنوں میں بھی شام کو ساڑھے سات بجے آدھے گھنٹے کیلئے لائٹ جلائی جاتی ہے اور زائرین شوق کے ساتھ اس منظر کا نظارہ کرتے ہیں۔ دنیا کے دیگر شہروں و خطوں کے مقابلے میں میسور کی تصویر مختلف نظر آتی ہے، سر سبزو شادابی آج بھی وہاں برقرار ہے۔ میسور کے تاریخی مقامات میں آدم مسجد بھی شامل ہے جس کی تعمیر سلطان حیدر علی کے زمانے میں ہوئی تھی۔ یہ لکڑی کی مسجد ہے لیکن اس کا رخ انتہائی خوبصورت اور دیدہ زیب ہے ۔ میسور شہر سے تقریباً 15 کلومیٹر کی دوری پر سرنگا پٹنم واقع ہے، حیدر علی اور ٹیپو سلطان کے زمانے میں یہی شہر دارالخلافہ تھا۔ دو ندی کے کنارے پر یہ موجود ہے، جائے وقوع انتہائی خوبصورت اور پرکشش ہے۔ </h2>
<h2 dir="rtl" style="text-align: right;">
بنگلور میسور ہائی وے سے چند کلو میٹر اندر جا کر ٹیپو سلطان کا مقبرہ ہے۔ ایک وسیع احاطہ ہے جس کا نام گنبذ ہے، چاروں طرف گارڈن بنے ہوئے ہیں، بیچ میں ایک گنبد نما مکان ہے جہاں حضرت ٹیپو سلطان، ان کے والد حیدر علی اور والدہ محترمہ کی قبر ہے۔ ٹیپو سلطان کی قبر پر شیر کی کھال رکھی ہوئی ہے۔ گنبد کے خادموں کے مطابق حضرت اپنے زمانے میں اسی پر بیٹھتے تھے، اس لئے اسے ان کی قبر پر اوڑھایا گیا ہے۔ مقبرہ کے تین دروازے ہیں، یہ تینوں دروازے سونے کے تھے جسے انگریزوں نے غصب کر لیا، مقبرہ کے چاروں طرف کچھ چھتیس کھمبے بھی بنے ہوئے ہیں۔ اس کی احاطے میں چاروں جانب خوبصورت عمارت ہے جن کی حیثیت دورِ بادشاہت میں مسافر خانے کی تھی۔</h2>
<h2 dir="rtl" style="text-align: right;">
اس احاطے میں ایک مسجد بھی بنی ہوئی ہے جس کا نام مسجد اقصی ہے۔ ٹیپو سلطان نے ہی اس مسجد کی تعمیر کرائی تھی۔ مقبرہ کے بالکل سامنے سرخ رنگ کا وہ جھنڈا لہرایا گیا ہے جو آپ کے زمانے میں تھا، لا الہ اللہ محمد الرسول اللہ لکھا ہوا ہے اور ایک علامت بھی بنی ہوئی ہے۔ گنبد کے بالکل سامنے ہے اور یوں لگتا ہے کہ آج بھی وہاں اسی جھنڈے کی حکمرانی ہے۔ مزار پر جانے کیلئے کوئی ٹکٹ نہیں ہے، ہزاروں کی تعداد میں ملک و بیرون ملک کے زائرین وہاں آتے ہیں۔ اپنے وقت کا ایک بہادر حکمران منوں مٹی تلے دفن ہے جسے لوگ خراج تحسین پیش کرنے جوق در جوق آتے ہیں اور آتے رہیں گے۔ یہ سلام عقیدت ہے آزادی کیلئے لڑنے والوں کیلئے جو عزت کی موت کو ذلت کی زندگی پر ترجیح دیتے ہیں۔ </h2>
<h2 dir="rtl" style="text-align: right;">
شمس تبریز</h2>
</div>
KHAWAJA UMER FAROOQhttp://www.blogger.com/profile/11468318155300615604noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-6558324054135046872.post-2598732642819652762019-06-02T06:16:00.001-07:002021-07-21T06:51:01.721-07:00صحرا کا شیر : عمر مختار <div dir="ltr" style="text-align: left;" trbidi="on">
<div class="separator" style="clear: both; text-align: center;">
<a href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEhZYxMAxHyPFkYW3LtvRxDk7nVLV4Fzs_gDZ3g_BjFr73AQmv2iJeQp4sjn988_aXVE6X3jJe7F2UsacMFMhlz0RzzDiPLyGdbUZqIWYTS0FLp-SG1erLmXToj_84daQyiGTPr6EtSe6mo/s1600/Omar+Mukhtar.jpg" imageanchor="1" style="margin-left: 1em; margin-right: 1em;"><img border="0" data-original-height="977" data-original-width="1600" height="243" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEhZYxMAxHyPFkYW3LtvRxDk7nVLV4Fzs_gDZ3g_BjFr73AQmv2iJeQp4sjn988_aXVE6X3jJe7F2UsacMFMhlz0RzzDiPLyGdbUZqIWYTS0FLp-SG1erLmXToj_84daQyiGTPr6EtSe6mo/s400/Omar+Mukhtar.jpg?imgmax=1600"
width="400" /></a></div>
<h2 dir="rtl" style="text-align: right;">
اگر کسی سے بھی پوچھا جائے کہ لیبیا کی تاریخ کی عظیم ترین شخصیت کون ہے تو ایک ہی جواب ملے گا، عمر مختار۔ عمر مختار کو صحرا کا شیر (Lion of Desert) بھی کہا جاتا ہے۔ انہوں نے اٹلی کے خلاف لیبیا کی آزادی کی جنگ لڑی۔ اٹلی نے 1911ء میں لیبیا پر قبضہ کیا جب لیبیا سلطنت عثمانیہ کا حصہ تھا۔ انہوں نے 20 برس تک اپنے ملک کو اٹلی کے غاصبانہ قبضے سے آزاد کرانے کیلئے پیہم جدوجہد کی۔ تاریخ نے ثابت کیا کہ عمر مختار جیسے حریت پسند کم ہی پیدا ہوتے ہیں۔ عمر مختار 20 اگست 1858ء کو زویات ضفور میں ایک غریب گھرانے میں پیدا ہوئے۔ ان کا پورا نام عمرالمختار محمد بن فرحات المنفی تھا۔ ابھی وہ کم سن تھے کہ ان کے والد کا انتقال ہو گیا اور ان کی ابتدائی زندگی غربت و افلاس میں گزری۔ شارف الغریانی نے عمرمختار کو اپنا بیٹا بنا لیا۔ شریف الغریانی، مذہبی اور سیاسی رہنما حسین غریانی کے بھتیجے تھے ۔ </h2>
<h2 dir="rtl" style="text-align: right;">
عمر مختار نے ابتدائی تعلیم مسجد میں حاصل کی۔ اس کے بعد انہوں نے آٹھ سال تک جغبوب کی سنوسیہ یونیورسٹی میں تعلیم کا سلسلہ جاری رکھا۔ وہ قرآن پاک کے عالم بن گئے اور امام بھی۔ انہیں اپنے معاشرتی ڈھانچے کے بارے میں بھی بہت آگاہی حاصل ہوئی۔ انہیں قبائل کے اندرونی تنازعات نمٹانے کیلئے چنا گیا۔ عمر مختار جغبوب میں سنوسیہ تحریک کے ساتھ وابستہ ہو گئے۔ اکتوبر 1911ء میں اٹلی اور ترکی کی جنگ کے دوران اٹلی کی بحریہ لیبیا کے ساحلوں تک پہنچ گئی۔ اس وقت یہ علاقہ ترکی کی سلطنت عثمانیہ کے زیرنگیں تھا۔ اٹلی کے امیر البحر لیوگی فراویلی نے ترکی کی حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ یہ علاقہ اٹلی کے حوالے کر دے یا پھر طرابلس اور بن غازی فوری تباہی کیلئے تیار ہو جائیں۔ <div class="separator" style="clear: both; text-align: center;">
<a href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEjkqC-fQgsHB7txxWQICe4eBDOdKXcfIWSZIjwNoM7j34M3BGHmbFXzX7wfo_izmECqRuEh6Qxb8kUQ2H0M9pHpcrIa_MCmaz6pI17_Z43sUF682mzWEv_r3OwOkrcuHYGhajqhk5lz_6c/s1600/Omar+Mukhtar+2.jpg" imageanchor="1" style="margin-left: 1em; margin-right: 1em;"><img border="0" data-original-height="1024" data-original-width="1461" height="280" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEjkqC-fQgsHB7txxWQICe4eBDOdKXcfIWSZIjwNoM7j34M3BGHmbFXzX7wfo_izmECqRuEh6Qxb8kUQ2H0M9pHpcrIa_MCmaz6pI17_Z43sUF682mzWEv_r3OwOkrcuHYGhajqhk5lz_6c/s400/Omar+Mukhtar+2.jpg" width="400" /></a></div>
</h2>
<h2 dir="rtl" style="text-align: right;">
ترکوں اور ان کے اتحادیوں (لیبیا کے شہری) نے ایسا کرنے سے انکار کر دیا۔ اس پر اٹلی نے ان شہروں پر تین دن تک بمباری کی اور پھر اعلان کیا کہ طرابلس کے لوگ اٹلی کے ساتھ ہیں۔ اس کے بعد اٹلی کی فوجوں اور لیبیا کی جماعتوں کے مابین مسلح لڑائیاں شروع ہو گئیں۔ عمر مختار قرآن پاک کے عالم تھے، لیکن اس کے ساتھ ساتھ وہ صحرائی جنگ کے رموز اور اس علاقے کی جغرافیائی حیثیت سے بھی آگاہ تھے۔ صحرائی جنگ کے حوالے سے جو مہارت انہیں حاصل تھی‘ اٹلی کی فوج اس کے برابر نہ آ سکی۔ عمر مختار نے بار بار اپنے چھوٹے گروپوں کے ذریعے کامیاب حملے کیے۔ ان کے جانثاروں نے بڑی مہارت سے حریفوں کے ٹھکانوں کو نشانہ بنایا اور فوجیوں پر حملے کیے۔ انہوں نے سپلائی اور ترسیل کی لائنیں کاٹ دیں۔ </h2>
<h2 dir="rtl" style="text-align: right;">
گوریلا جنگ کے ان حربوں نے اٹلی کی شاہی فوج کو ششدر کر دیا۔ عمر مختار نے بہت جلد اپنے حربوں کو تبدیل کیا، انہیں مصر سے امداد ملتی رہی۔ مارچ 1927ء میں جغبوب کے قبضے اور گورنر اٹیسیوتیروزی کی سخت گیر حکومت کے باوجود عمر مختار نے اٹلی فوجی دستوں کو رحیبہ کے مقام پر حیران کر دیا۔ 1927ء اور 1928ء کے درمیان عمر مختار نے سنوسیہ فوجوں کی تنظیم نو کی جو مسلسل اٹلی کا نشانہ بن رہی تھیں۔ جنرل تبروزی نے بھی عمرمختار کی غیر معمولی صلاحیتوں اور عزم و ہمت کو تسلیم کیا۔ اس نے یہ مانا تھاکہ عمر مختار کی قوت ارادی غیر معمولی اور وہ حوصلے کی چٹان ہیں۔ ایک طرف اٹلی کی فضائیہ عمر مختار اور ان کے ساتھیوں کیلئے مسلسل خطرہ بنی ہوئی تھی تو دوسری طرف مخالف فوجوں کو مقامی مخبروں کا تعاون بھی حاصل تھا۔ </h2>
<h2 dir="rtl" style="text-align: right;">
باایں ہمہ، عمر مختار نے اپنی جدوجہد جاری رکھی۔ 11 ستمبر 1931ء کو عمر مختار پر چھپ کر حملہ کیا گیا اور وہ اسلنطہ کے مقام پر زخمی ہو گئے اور اٹلی کی فوج نے انہیں گرفتار کر لیا۔ اس کے ساتھ ہی عمر مختار کی 20 سالہ جدوجہد کا خاتمہ ہو گیا۔ اس وقت اٹلی میں فسطائی رہنما مسولینی کی حکومت تھی ۔ جو کچھ عمر مختار اور ان کے ساتھیوں کے ساتھ ہو رہا تھا وہ سب مسولینی کے احکامات پر ہو رہا تھا۔ عمر مختار پر اٹلی کی عدالت میں مقدمہ چلایا گیا اور انہیں پھانسی کی سزا سنائی گئی۔ اٹلی کو یہ توقع تھی کہ عمر مختار کی پھانسی کے ساتھ ہی لیبیا کی مزاحمت دم توڑ جائے گی۔ اس وقت عمر مختار مزاحمت کی علامت بن کر سامنے آئے تھے۔ </h2>
<h2 dir="rtl" style="text-align: right;">
انہیں کو 16ستمبر 1931ء کو 20 ہزار لوگوں کے سامنے پھانسی دے دی گئی۔ یہ لوگ اس وقت جنگی قیدیوں کی حیثیت سے رہ رہے تھے۔ عمر مختار کی پھانسی نے مزاحمت کی تحریک ختم نہیں کی بلکہ اس کی شدت میں اضافہ ہوتا گیا۔ 1951ء میں آخرکار لیبیا کو آزادی مل گئی۔ اس طرح عمر مختار نے 1931ء میں اپنی جان کا جو نذرانہ پیش کیا تھا اس کا صلہ لیبیا کے باشندوں کو 20 برس بعد ملا۔ عمر مختار لیبیا کی آزادی کے حوالے سے مزاحمت کا استعارہ تھے، ان کا نام تاریخ سے کبھی حذف نہیں کیا جا سکتا۔ یہاں اس بات کا تذکرہ ضروری ہے کہ عمر مختار کے نام سے ہالی وڈ میں فلم بھی بنائی گئی جو 1980ء میں ریلیز ہوئی۔ اس فلم کی تیاری میں لیبیا کے سابق صدر معمر قذافی نے بھی حصہ ڈالا۔ </h2>
<h2 dir="rtl" style="text-align: right;">
سن 2009ء میں صدر قذافی جب روم گئے تو انہوں نے اپنی قمیص پر عمر مختار کی وہ تصویر لگا رکھی تھی جب وہ اٹلی کی فوج کی قید میں تھے۔ فلم ’’عمر مختار‘‘ میں مرکزی کردار اداکار انتھونی کوئن نے ادا کیا تھا۔ انہوں نے اس کردار میں جتنی جان ڈالی اسے دیکھ کر لگتا تھا کہ ’’صحرائی شیر‘‘ دوبارہ زندہ ہو گیا ہے۔ انتھونی کوئن نے پھانسی کے مناظر کی فلم بندی میں اداکاری کی رفعتوں کو چھو لیا۔ عمر مختار کی طرح انتھونی کوئن نے بھی ان کا کردار ادا کر کے لافانی شہرت حاصل کی۔ فرانز فینن نے بالکل سچ کہا تھا کہ آزادی کی تحریکیں صرف اسی صورت میں کامیابی سے ہمکنار ہوتی ہیں جب قیادت ایک ایسے شخص کے ہاتھ میں ہو جسے عزم کا کوہ گراں کہا جائے۔ بلاشبہ عمرمختار بھی ایسے ہی رہنما تھے۔ </h2>
<h2 dir="rtl" style="text-align: right;">
عبدالحفیظ ظفر</h2>
</div>
KHAWAJA UMER FAROOQhttp://www.blogger.com/profile/11468318155300615604noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-6558324054135046872.post-11034080165816123912019-06-02T05:32:00.002-07:002021-10-19T04:40:27.438-07:00فتح قسطنطنیہ : تاریخی اسلامی کا ایک درخشاں باب<div dir="ltr" style="text-align: left;" trbidi="on">
<div class="separator" style="clear: both; text-align: center;">
<a href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEjqkrHkJYC182P5e4Z5WVJErLzWLpS6EHud8iZdh0vfsPci3k6EAKPCNLiwND8C4z8bKIJ0JyQKdlRDPTxtxbefp2hr1hqUWHWAXjg3AkSJjqKobeZOdGQjHwcHofH2GLLO5SWRtnkoo0U/s1600/Qustuntunia.jpg" imageanchor="1" style="margin-left: 1em; margin-right: 1em;"><img border="0" data-original-height="1024" data-original-width="1509" height="271" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEjqkrHkJYC182P5e4Z5WVJErLzWLpS6EHud8iZdh0vfsPci3k6EAKPCNLiwND8C4z8bKIJ0JyQKdlRDPTxtxbefp2hr1hqUWHWAXjg3AkSJjqKobeZOdGQjHwcHofH2GLLO5SWRtnkoo0U/s400/Qustuntunia.jpg?imgmax=1600"
width="400" /></a></div>
<h2 dir="rtl" style="text-align: right;">
فتح قسطنطنیہ (بلاد روم/ استنبول) تاریخی اسلامی کا ایک درخشاں باب ہے۔ یہ شہر 29 مئی 1453 عیسوی میں 21 سالہ عثمانی سلطان محمد فاتح نے 54 روزہ محاصرے کے بعد فتح کیا تو پورے عالم اسلام میں فرحت و انبساط کی ایک لہر دوڑ گئی، عثمانیوں کے عزت و احترم میں زبردست اضافہ ہوا اور سلطان فاتح ایک بہادر اور جہاندیدہ رہنما کے طور پر سامنے آئے۔ اس جوش و خروش کی بنیادی وجہ شہر سے متعلق سرکارِ دو عالم ﷺ کی متعدد احادیث اور بشارتیں تھیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ میری امت کا پہلا لشکر جو بلاد روم پر حملہ کرے گا، بخشا بخشایا ہے۔ فرمایا کہ میری امت یہ شہر ضرور فتح کرے گی۔ فرمایا مجھے خواب میں دیکھایا گیا کہ میری امت کے کچھ لوگ یہ شہر فتح کر رہے ہیں۔</h2>
<h2 dir="rtl" style="text-align: right;">
یہی وجہ ہے کہ صحابہ کرام رضوان اللہ تعالی اجمعین سے لیکر عثمانی ترکوں تک مسلمان ایک ہزار سال تک اس شہر کو فتح کرنے کی مسلسل کوشش کرتے رہے، یہاں تک کہ سلطان محمد دوئم کی قسمت کا ستارا جاگا اور فاتح کا لقب ہمیشہ کے لئے انکے نام کے ساتھ منسوب ہو گیا۔ اس شہر پر سب سے پہلا حملہ 669 عیسوی میں امیر المومنین سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ و تعالی عنہ کے دور میں ہوا۔ آپ نے ایک لشکر جری تیار کر کے شہر کی طرف روانہ کیا جس میں سیدنا حسین (رض)، ابو ایوب انصاری (رض) اور یزید ابن معاویہ سمیت ہزاروں اصحاب رسول ﷺ اور تابعین نے شرکت کی۔ محاصرہ چھ ماہ تک جاری رہا لیکن شہر کی مظبوط فصیل صحابہ کرام اور شہر کے درمیان حائل رہی۔ </h2>
<h2 dir="rtl" style="text-align: right;">
<div class="separator" style="clear: both; text-align: center;">
<a href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEhdiI90DhGAZRG7v1fA3iWH7OohFffKoavuwWSRCXDEcg1UXL8LSC_i0PCU1lvNO8-KsTtrBlvQGi3sjxRQ4RDXWhO9_BGVMhAmO2U3X3Z1ruEJ5floytEA4bZnI10-iKhupl57Fn2PWVY/s1600/Qustuntunia+3.jpg" imageanchor="1" style="margin-left: 1em; margin-right: 1em;"><img border="0" data-original-height="1024" data-original-width="1587" height="257" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEhdiI90DhGAZRG7v1fA3iWH7OohFffKoavuwWSRCXDEcg1UXL8LSC_i0PCU1lvNO8-KsTtrBlvQGi3sjxRQ4RDXWhO9_BGVMhAmO2U3X3Z1ruEJ5floytEA4bZnI10-iKhupl57Fn2PWVY/s400/Qustuntunia+3.jpg" width="400" /></a></div>
</h2>
<h2 dir="rtl" style="text-align: right;">
ناکامی کے باوجود مختلف ادوار میں کوششیں جاری رہیں۔ 1402 میں ترک سلطان بایزید یلدرم نے شہر کا محاصرہ کیا اور قریب تھا کہ وہ شہر میں داخل ہو جاتے لیکن مشرقی سرحد پر تیمور لنگ کے حملوں کی وجہ سے انہیں محاصرہ اٹھا کر واپس آنا پڑا۔ بایزید یلدرم کے پر پوتے اور سلطان مراد اول کے بیٹے سلطان محمد دوئم 19 برس کی کم عمری میں تخت نشین ہوئے تو جہاں انہیں اندرونی خلفشار کا سامنا تھا وہی بازنطینی حکمران بھی انکے گرد سازشوں کے جال بن رہے تھے۔ ان کٹھن اور نامساعد حالات میں انہوں نے فتح قسطنطنیہ کو اپنا مقصد حیات بنا لیا اور اپنی حکومت کے پہلے دو سال فتح کی منصوبہ بندی میں بسر کر دئے۔ </h2>
<h2 dir="rtl" style="text-align: right;">
غیر تو غیر، انکے اپنے مشیر اور اعلی حکومتی عہدیدار بھی ان ارادوں اور منصوبوں کا مذاق اڑایا کرتے تھے، لیکن سلطان جوان تھے اور جوش اپنی انتہا پر تھا۔ انہوں نے باضابطہ محاصرے سے قبل آبنائے باسفورس کے دوسری طرف ایک حصار بنا کر بازنطین کی تجارت روک دی اور توپوں کا ایک بڑا کارخانہ لگا کر ماہر کاریگر اوربن سے اس زمانے کے سب سے طاقتور توپ تیار کروائیں۔<br />منصوبے کے مطابق 29 اپریل 1453 کو شہر کا محاصر کیا گیا لیکن ابنائے باسفورس سے شہر قسطنطنیہ کے اندر جانے والی خلیج “شاخ زریں” کے دہانے پر بازنطینی افواج نے ایک زنجیر لگا دی، جس کی وجہ سے عثمانی بحری جہاز شہر کی فصیل کے کمزور حصے کے قریب نہیں جا سکتی تھیں۔ </h2>
<h2 dir="rtl" style="text-align: right;">
یوں شہر پر تمام ابتدائی حملے بری طرح ناکام ثابت ہوئے اور ترک افواج کو زبردست جانی نقصان کا سامنا کرنا پڑا۔ دوسری جانب جیسے جیسے محاصرا طویل ہوتا جارہا تھا، شہر والوں کے لئے یورپ سے امداد کے امکانات بھی بڑھتے جا رہے تھے۔ کہتے ہیں کہ مایوسی کی اس صورتحال میں سلطان اور انکے شیخ کو خواب میں بشارتوں کا سلسلہ شروع ہوا اور فصیل کے قریب جلیل القدر صحابی حضرت ابو ایوب انصاری (رض) کی قبر مبارک ظاہر ہو گئی۔ ابو ایوب انصاری ہزار سال قبل شہر کے پہلے محاصرے کے دوران شہید ہو گئے تھے۔ ان واقعات نے سلطان کے جذبوں کو دوبارہ جوان کر دیا۔</h2>
<h2 dir="rtl" style="text-align: right;">
اس نے جہاں شہر کے دوسری جانب غلطہ کےعلاقے سے بحری جہازوں کو خشکی پر سے گزار کر انہیں شاخ زریں میں اتارنے کا کارنامہ انجام دیا تو وہیں زیرزمین سرنگ بنا کر دیوار کے قریب بارودی مواد نصب کروا دئے۔ یوں دیوار گر گئی اور ساتھ ہی بازنطینی سلطنت بھی۔ چشم تصور میں لائیں کہ ترک جانثار، آغا، پاشا، علماء اور سب سے آگے سلطان محمد فاتح شہر میں داخل ہو رہے ہیں۔ واللہ وہ لمحہ کتنا خوبصورت ہو گا۔ آپ صلی اللہ و علیہ وسلم نظارہ کناں ہیں، یہ سوچ کر ترکوں کی جان نکلی جاتی ہو گی۔ سلطان نے شہر میں داخل ہو کر آیا صوفیہ کو مسجد میں تبدیل کر دیا، جسکی وجہ جہاں شاہ قسطنطین کی طرف معاہدے کی پیشکش کا انکار تھا وہیں دو صدیاں قبل اندلس میں درجنوں مساجد کو معاہدوں کے باوجود کلیسا میں تبدیل کرنے کے اقدامات بھی تھے۔ </h2>
<h2 dir="rtl" style="text-align: right;">
ارتھوڈکس فرقے کے کلیسا کو برقرار رکھا گیا اور سرکاری خزانے سے دوران محاصرہ عیسائیوں اور یہودیوں کے تباہ ہونے والے گھروں اور عبادت گاہوں کی تعمیر نو بھی کی گئی۔ سلطان محمد فاتح نے اپنے تیس سالہ دور حکومت میں فتوحات کا سلسلہ جاری رکھا اور آگے بڑھتے ہوئے سربیہ، بوسنیہ اور یونان کے مختلف علاقوں کو سلطنت عثمانیہ میں شامل کر لیا۔ وہ ترک، عربی، فارسی، عبرانی، یونانی اور لاطینی پر زبانوں پر مکمل عبور رکھتے اور کئی زبانوں میں شاعری کرتے۔ انہیں ریاضی، فلکیات اور فلسفے کے علم میں بھی گہری دلچسپی تھی۔</h2>
<h2 dir="rtl" style="text-align: right;">
یورپی مورخین فتح قسطنطنیہ کو” قرون وسطی ” کے خاتمے اور جدید تاریخ کا نقطہ آغاز قرار دیتے ہیں۔ بدقسمتی سے اس فتح کے ساتھ ہی مسلمان دنیا جمود کا شکار ہو گئی۔ دوسری طرف یورپ نے اس بدترین شکست سے نصیحت پکڑی اور ان کی آئندہ پانچ صدیاں نشاۃ ثانیہ کے عنوان سے ماخوذ ہو گئیں۔<br />اقبال نے اس فتح کو کچھ یوں یاد کیا</h2>
<h2 dir="rtl" style="text-align: right;">
خطۂ قسطنطنیہ یعنی قیصر کا دیار<br />مہدئ امت کی سطوت کا نشانِ پائیدار</h2>
<h2 dir="rtl" style="text-align: right;">
صورتِ خاکِ حرم یہ سر زمیں بھی پاک ہے<br />آستان مسند آرائے شہِ لولاک ہے</h2>
<h2 dir="rtl" style="text-align: right;">
نکہتِ گل کی طرح پاکیزہ ہے اس کی ہوا<br />تربتِ ایوب انصاری سے آتی ہے صدا</h2>
<h2 dir="rtl" style="text-align: right;">
اے مسلماں! ملتِ اسلام کا دل ہے یہ شہر<br />سینکڑوں صدیوں کی کشت و خوں کا حاصل ہے یہ شہر</h2>
<h2 dir="rtl" style="text-align: right;">
وہ زمیں ہے تو مگر اے خواب گاہِ مصطفی<br />دید ہے کعبے کو تیری حجِ اکبر سے سوا</h2>
<h2 dir="rtl" style="text-align: right;">
خاتمِ ہستی میں تو تاباں ہے مانندِ نگیں<br />اپنی عظمت کی ولادت گاہ تھی تیری زمیں</h2>
<h2 dir="rtl" style="text-align: right;">
تجھ میں راحت اس شہنشاہِ معظم کو ملی<br />جس کے دامن میں اماں اقوامِ عالم کو ملی</h2>
<h2 dir="rtl" style="text-align: right;">
نام لیوا جس کے شاہنشاہِ عالم کے ہوئے<br />جانشیں قیصر کے ، وارث مسندِ جم کے ہوئے</h2>
<h2 dir="rtl" style="text-align: right;">
کاشف نصیر</h2>
</div>
KHAWAJA UMER FAROOQhttp://www.blogger.com/profile/11468318155300615604noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-6558324054135046872.post-65521949760670273942019-04-25T03:10:00.002-07:002021-07-21T06:51:44.741-07:00محمود غزنوی : میں بت شکن ہوں بت فروش نہیں <div dir="ltr" style="text-align: left;" trbidi="on">
<div class="separator" style="clear: both; text-align: center;">
<a href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEgIvtcTvZyn9y5Ga2l6zHzoXqarZErzXAKLWdtPnxF-CgFgknNbgkDSOs3Ecn77t33V6TU6hh37I68IcrUCesSW47GNPWRPUapFmfJDLyCCKugF0vwyu9GwfezDEJYNa-TVWV9LE_KurZY/s1600/Mahmood+Ghaznavi+2.jpg" imageanchor="1" style="margin-left: 1em; margin-right: 1em;"><img border="0" data-original-height="1071" data-original-width="1600" height="267" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEgIvtcTvZyn9y5Ga2l6zHzoXqarZErzXAKLWdtPnxF-CgFgknNbgkDSOs3Ecn77t33V6TU6hh37I68IcrUCesSW47GNPWRPUapFmfJDLyCCKugF0vwyu9GwfezDEJYNa-TVWV9LE_KurZY/s400/Mahmood+Ghaznavi+2.jpg?imgmax=1600" width="400" /></a></div>
<h2 dir="rtl" style="text-align: right;">
اب سے 900 برس پیشتر افغانی اور ترکستانی قومیں ہند میں اس طرح چلی آ رہی تھیں جس طرح کسی زمانے میں آرین یا یونانی یا ستھین آئے تھے۔ یہ وہ زمانہ تھا جب اہل عرب کو اپنے شمال اور شمال مشرق کے ملکوں کی فتح کے لیے نکلے ہوئے ساڑھے تین سو برس ہو چکے تھے۔ ترکستان، فارس اور افغانستان کے لوگ مسلمان ہو گئے تھے۔ کئی عرب قبیلے ان ملکوں میں آباد ہو چکے تھے۔ ان لوگوں کے دلوں میں بھی وہی جوش اور ولولہ بھرا ہوا تھا جو عرب میں موجود تھا۔ اس وقت افغانستان کا بڑا شہر غزنی تھا۔ یہاں کا بادشاہ محمود نامی ایک ترک تھا۔ اس کا باپ پنجاب کے برہمن راجہ جے پال سے کئی دفعہ لڑا، اور اس کو شکست دے کر غزنی اور سندھ کے درمیان کے علاقے پر قابض ہو گیا تھا۔ </h2>
<h2 dir="rtl" style="text-align: right;">
ہند اس وقت دنیا کے زرخیز اور زر دار ملکوں میں شمار ہوتا تھا۔ اس کی تجارت کا سلسلہ اپنے شمال مغرب کے ملکوں سے ملتا ہوا ممالک فرنگ تک پہنچتا تھا۔قیمتی سامانِ تجارت اونٹوں پر لاد کر افغانستان کے دروں کی راہ ہند سے دور دراز ملکوں میں جاتا تھا۔ محمود ابھی لڑکا ہی تھا کہ مندروں کی باتیں سن کر وہ کہتا تھا کہ میں بڑا ہو کر بادشاہ بنوں گا اور ہندو راجائوں سے لڑوں گا۔ تیس برس کی عمر میں محمود غزنوی تخت شاہی پر جلوہ گر ہوا۔ جو کچھ یہ کہا کرتا تھا وہ سب کر کے دکھا دیا۔ وہ اپنی فوج لے کر ہند پر چڑھ آیا۔ یہاں جے پال جو اس کے باپ سے لڑ چکا تھا اور خراج ادا کرنے سے انکار کرتا تھا۔ محمودغزنوی نے جے پال کو شکست دے دی ۔ جے پال نے شرم کے مارے زمام سلطنت اپنے بیٹے انندپال کے ہاتھ میں دی اور آپ جیتے جی چتا میں جل کر مر گیا۔<div class="separator" style="clear: both; text-align: center;">
<a href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEhLNP2Fr1FiUr-QKYUIcNt6n0BAjppX_gZN96BBv1SrlsI4gRCQCCecDhVlKxbrRGY7_WIDOLYXHbeWqIQfjwkGQvig5Fo3Resf5nFRpX_jgy-OvcO28F2Iu6EoMPws0ckqBudR6z34Bs8/s1600/Mahmood+Ghaznavi+3.jpg" imageanchor="1" style="margin-left: 1em; margin-right: 1em;"><img border="0" data-original-height="1062" data-original-width="1599" height="265" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEhLNP2Fr1FiUr-QKYUIcNt6n0BAjppX_gZN96BBv1SrlsI4gRCQCCecDhVlKxbrRGY7_WIDOLYXHbeWqIQfjwkGQvig5Fo3Resf5nFRpX_jgy-OvcO28F2Iu6EoMPws0ckqBudR6z34Bs8/s400/Mahmood+Ghaznavi+3.jpg" width="400" /></a></div>
</h2>
<h2 dir="rtl" style="text-align: right;">
انندپال نے اجین، گوالیار، قنوج، دہلی اور اجمیر کے راجائوں کو پیغام دیا کہ محمودغزنوی سال آئندہ میں ضرور حملہ کرے گا آپ میرے ہمراہ ہو کر اس کا مقابلہ کریں۔ انہوں نے منظور کیا اور پنجاب میں داخل ہوئے، لیکن شمالی سرد ملکوں کے افغان ہند کے گرم میدانوں کے راجپوتوں سے زیادہ طاقتور تھے۔ گھمسان کی لڑائی ہوئی۔ راجپوت پسپا ہوئے۔ محمود غزنوی نے آگے بڑھ کر نگر کوٹ کو فتح کر لیا۔ مندروں کو نیست و نابود کیا۔ غزنی پہنچ کر انہوں نے ایک دعوت عام کا سامان کیا۔ کل افغانوں کو بلوایا۔ تین دن تک ان کی ضیافت کی۔ سرداروں اور امرا کا تو کہنا ہی کیا ہے۔ ان کو تو نہایت قیمتی تحفے دیئے اور غریب سے غریب افغان بھی کوئی ایسا نہ تھا کہ دعوت سے خالی ہاتھ گیا ہو اور ایک معقول انعام نہ لے گیا ہو۔ </h2>
<h2 dir="rtl" style="text-align: right;">
محمود غزنوی افغانوں کو ہند پر چڑھا لاتا تھا اور ان تمام راجپوت راجائوں سے اپنا بدلہ لیتا تھا جو انندپال کے ساتھ مل کر اس کے مقابلے میں آئے تھے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اس کی ہمت کا دریا طغیانی پر تھا۔ ہر بار جو قدم تھا، آگے ہی آگے پڑتا تھا۔ جہاں کہیں کوئی بڑا مندر نظر آیا وہیں جا کر حملہ کر دیا، مندر ڈھائے، بت توڑے۔ جہاں اس نے ہند پر حملہ کرنے کے لیے فوج کو جمع ہونے کا حکم دیا وہیں یہ لوگ آندھی کی طرح اٹھے چلے آئے، پھر محمود غزنوی کے ہر حملے میں فوج کی افزدنی نہ ہوتی تو کیا ہوتا۔ محمود غزنوی 1024ء میں آخری بار ہند پر حملہ آور ہوا اور سومناتھ کے مندر پر پہنچا۔ یہ علاقہ گجرات میں ایک بہت پرانا بڑا مندر تھا ۔ سندھ کے ریگستان میں ساڑھے تین سو میل کا دور دراز سفر طے کر کے وہ اس مندر کے سامنے آن موجود ہوا اور ہندوئوں کی بڑی فوج کو شکست دی ۔</h2>
<h2 dir="rtl" style="text-align: right;">
جب یہ مندر کے اندر داخل ہوا تو ڈرتے کانپتے پجاریوں نے التجا کی کہ اگر آپ ہمارے سومناتھ دیوتا کی مورت کو جوں کا توں چھوڑ دیں تو ہم اس کے عوض آپ کو بہت سا روپیہ دینے کو تیار ہیں لیکن انہوں نے کہا میں بت توڑنے آیا ہوں، بت بیچنے نہیں آیا۔ یہ کہہ کر بت پر اپنا آہنی گرز اس زور سے مارا کہ اس کے ٹکڑے ٹکڑے ہو گئے۔ اس کے بعد وہ وہاں سے نکل گیا۔ ان کے دو دارالخلافے تھے، غزنی اور لاہور۔ محمودغزنوی بہادر سپاہی تھا وہ ظالم اور بے رحم ہرگز نہ تھا۔ جنگی قیدیوں کو قتل نہیں کرتا تھا، سلطنت افغانستان کا انتظام بڑی خوبی کے ساتھ چلایا، غزنی میں عالیشان عمارتیں بنا کر اس کی رونق بڑھائی۔ بہت سے شاعر اور باکمال دور دراز کے ملکوں سے آ کر غزنی میں آباد ہوئے۔ </h2>
<h2 dir="rtl" style="text-align: right;">
ای-مارسڈن</h2>
</div>
KHAWAJA UMER FAROOQhttp://www.blogger.com/profile/11468318155300615604noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-6558324054135046872.post-5815304145791794802019-04-17T03:03:00.002-07:002021-10-19T04:40:44.303-07:00 دوسری جنگ عظیم : جرمنوں کا آخری بڑا حملہ <div dir="ltr" style="text-align: left;" trbidi="on">
<div class="separator" style="clear: both; text-align: center;">
</div>
<div class="separator" style="clear: both; text-align: center;">
<a href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEggEEMxVufEG-1B6sbegjHpnP_3lN8Wxy7dkAjpYiLcrT3cANd1W0ZiMeZHQC6QWlaOxemUeU0QEQud_sQo61Ny4Jsju3CAIRv67WEa8AHW4svzyusBj7GBaEHPUTChBkzAv8P5mxLEGBA/s1600/World+War+2+4.jpg" imageanchor="1" style="margin-left: 1em; margin-right: 1em;"><img border="0" data-original-height="1024" data-original-width="1272" height="321" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEggEEMxVufEG-1B6sbegjHpnP_3lN8Wxy7dkAjpYiLcrT3cANd1W0ZiMeZHQC6QWlaOxemUeU0QEQud_sQo61Ny4Jsju3CAIRv67WEa8AHW4svzyusBj7GBaEHPUTChBkzAv8P5mxLEGBA/s400/World+War+2+4.jpg?imgmax=1600" width="400" /></a></div>
<h2 dir="rtl" style="text-align: right;">
سن 1944ء میں ہٹلر نے کہا تھا کہ ہمارے جوابی حملہ سے اتحادیوں کے چھکے چھوٹ جائیں گے اور ہم انہیں سمندر میں دھکیل دیں گے۔ اسی تناظر میں دسمبر 1944ء سے جنوری 1945ء تک دوسری جنگ عظیم کے دوران مغربی محاذ پر ایک بڑی لڑائی لڑی گئی۔ یہ لڑائی ارڈینیس کے گھنے جنگلوں میں ہوئی جو بلجیم کے مشرق اور فرانس کے شمال مشرق میں ہیں۔ یہ دوسری جنگ عظیم کے خاتمے سے قبل سب سے بڑا جرمن حملہ تھا۔ اتحادی اس حملے کے لیے تیار نہ تھے اس لیے ابتدا میں انہیں بہت نقصان اٹھانا پڑا۔ اس اہم کارروائی کو بروئے کار لانے کے لیے وان رنسٹیٹ موزوں ترین آدمی تھا جو نہایت تجربہ کار و دور رس جرمن جنرل تھا۔ اس کے مقابلہ میں جنرل آئزن ہاور (سابق صدر امریکا) تھا جو دوسری جنگ عظیم میں یورپ میں اتحادی افراد کا سپریم کمانڈر تھا۔ </h2>
<h2 dir="rtl" style="text-align: right;">
جنرل آئزن ہاور جرمن جنرل وان رنسٹیٹ سے مختلف انسان تھا۔ اس نے بڑی ملائم طبیعت پائی تھی اور وہ فوجی ہونے سے زیادہ سویلین تھا۔ اس کو اس کی خامی کہا جائے یا کچھ اور کہ آئزن ہاور باوجود اعلیٰ فوجی تربیت یافتہ ہونے کے اپنے عملہ کی رائے پر چلنے کا عادی تھا۔ اسی وجہ سے بعض لوگوں کا خیال ہے کہ جنگ کے بعض نازک مواقع پر اس نے اپنی ذاتی فوجی صلاحیت اور دوربینی سے فی الفور کام نہیں لیا بلکہ تاخیر سے فیصلہ کرنے کے باعث اکثر مہمات میں وقت کے تقاضے کے مطابق کام کرنے سے قاصر رہ گیا۔ یہ تو اتحادیوں کی خوش قسمتی تھی کہ ان کے پاس منٹگمری، پٹین اور براڈلے جیسے جنرل بھی تھے جو چشم زدن میں چھٹی حس کے ذریعے ایک فوری کارروائی کر گزرتے تھے۔ <div class="separator" style="clear: both; text-align: center;">
<a href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEjMZeUeVhuhy0nDkSn54C_Br8AofHO5GWX0489LQwHIwlcT9YBLd_b7xVYoRLZM9q6ulD_wRGGE2k6cnEyLQNQf09pajpi8jnGOqA9o4MprdRyQo-rMPkfKwghZPZk4X2SqM3_SweDhzFI/s1600/World+War+2.jpg" imageanchor="1" style="margin-left: 1em; margin-right: 1em;"><img border="0" data-original-height="717" data-original-width="960" height="298" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEjMZeUeVhuhy0nDkSn54C_Br8AofHO5GWX0489LQwHIwlcT9YBLd_b7xVYoRLZM9q6ulD_wRGGE2k6cnEyLQNQf09pajpi8jnGOqA9o4MprdRyQo-rMPkfKwghZPZk4X2SqM3_SweDhzFI/s400/World+War+2.jpg" width="400" /></a></div>
</h2>
<h2 dir="rtl" style="text-align: right;">
آئزن ہاور کی ان ہی باتوں کی وجہ سے اتحادیوں کو ابتدا میں افریقہ میں بڑی دشواریوں اور ناکامیوں کا سامنا کرنا پڑا۔ جنرل وان رنسٹیٹ کی کمان میں ایک عظیم الشان جوابی حملہ کیا گیا جس میں تیرہ ڈویژن یعنی دو لاکھ سے زیادہ جرمن سپاہی امریکیوں کی ایک تنگ سی دفاعی لائن پر ٹوٹ پڑے۔ اتنے چھوٹے علاقہ میں اس قدر جرمن فوج پہلے کبھی جمع نہ ہوئی تھی۔ اس فوج کے عقب میں ایک ڈویژن فوج اور تھی جس کا یہ کام تھا کہ امریکی جتنے مقامات خالی کرتے جائیں وہ ان پر قابض ہو کر اپنی پوزیشن مضبوط کر لے تاکہ اگلے دو لاکھ جرمن سپاہی آگے بڑھتے رہیں۔ یہ کہنا بے کار ہو گا کہ اتنی بڑی فوج کے ساتھ کسی قدر فوجی سازو سامان ہو گا۔ مثلاً ٹینک، فوجی گاڑیاں، توپیں اور گولہ بارود۔ </h2>
<h2 dir="rtl" style="text-align: right;">
عجیب بات یہ ہے کہ اکتوبر اور نومبر 1944ء میں اس عظیم حملہ کی تیاری کے کاغذات اتحادیوں کے جاسوسی محکمہ کے ہاتھ لگ چکے تھے۔ پھر بھی اتحادیوں نے پیش بندی کی خاطر خواہ تدابیر اختیار نہیں کی تھیں۔ کاغذات میں اگرچہ جرمنوں کے ابتدائی پلان تھے تاہم اتحادی ان سے فائدہ اٹھا سکتے تھے مگر اس کے بجائے ان کی فوجیں فرانس کو عبور کر کے آگے جا کر رک گئیں اور بلجیم کے ایک علاقہ میں اپنا کیمپ قائم کر لیا۔ جرمن فوجوں کے کثیر اجتماع کے مقابلے پر شمال و جنوب کی طرف اینگلو امریکن فوجیں تھوڑی سی تھیں جو زیادہ سے زیادہ پانچ ڈویژن ہوں گی۔ اس کے برعکس جنرل وان رنسٹیٹ تیرہ ڈویژن کے ساتھ حملہ کی تیاری کر رہا تھا۔</h2>
<h2 dir="rtl" style="text-align: right;">
اتحادی نہ صرف اس خطرناک حقیقت سے بے خبر تھے بلکہ یقین کی حد تک ان کا خیال تھا کہ ان جرمنوں میں اگلی سی سکت نہیں رہی۔ آخر 16 دسمبر 1944ء کو جرمنی کی اس قوی و کثیر فوج نے اتحادیوں کے ڈویژن نمبر ایک سو چھ پر حملہ کر دیا اور ایک ہی وار میں اس کے پرخچے اڑا دیے۔ فوجی مبصرین حیران تھے کہ جرمنی کی اس عظیم اور تجربہ کار فوج کو روکنے کے لیے اتحادیوں نے اپنے نئے اور ناتجربہ کار سپاہیوں کو کیوں آگے کر دیا۔ غرض اتحادیوں کو دام میں لانے کے لیے جرمنوں نے کئی شکنجے بنائے جن میں اتحادی ناتجربہ کاری کی وجہ سے پھنستے چلے گئے اور انہیں سپاہ و اسلحہ کے باب میں شدید نقصانات اٹھانے پڑے۔ </h2>
<h2 dir="rtl" style="text-align: right;">
جنرل آئزن ہاور کا محکمہ جاسوسی بالکل ناکارہ ثابت ہوتا رہا۔ جنرل وان رنسٹیٹ نے اپنی زبردست جنگی چالوں سے اتحادیوں کو پریشان کر ڈالا تھا۔ اس محاذ کے باب میں جنرل وان رنسٹیٹ کی رپورٹ جب برلن پہنچی تو ہٹلر کی مسرت کی انتہا نہ رہی۔ غرض ارڈینیس کے محاذ پر امریکی جرمنوں کے اچانک جوابی حملوں کی پیش بینی اور پیش بند کرنے سے قاصر رہ گئے، جرمنوں کے مقابلے میں ان کے جنگی سازوسامان اور افواج کی دال نہ گل سکی۔ وہ کافی حد تک مفلوج کر دی گئیں اور انہیں پیچھے دھکیل دیا گیا۔ اتحادیوں کی صفوں میں نہ تو اگلی سی گرما گرمی رہی تھی اورنہ نشاطی کیفیت بلکہ وہ خوف و ہراس کے عالم میں سوچنے لگے تھے کہ جرمن فوجوں کا مقابلہ کرنا بہت مشکل ہے۔ اتحادیوں نے اس سے پہلے جرمنی کی قوت کا غلط اندازہ لگایا تھا اور اس محاذ پر اس کا خمیازہ انہیں بھگتنا پڑا تھا۔</h2>
<h2 dir="rtl" style="text-align: right;">
جنرل رنسٹیٹ کی سرعت سے پیش قدمی کا ایک اہم مقصد یہ بھی تھا کہ وہ امریکیوں کے تیل کے ذخائر پر قبضہ کرنا چاہتا تھا لیکن اس اہم محاذ پر ابھی جرمنی کی فتح دور تھی کیونکہ اتحادیوں کی فوجوں نے سمٹنا شروع کر دیا تھا اور وہ جلد ہی ایک بڑی حملہ آور قوت میں منتقل ہو گئی تھیں۔ آخر جنرل بروس کلارک نے اپنی تازہ فوج کے ساتھ جرمنوں پر حملے شروع کر دیے جس سے جرمنوں کے آگے بڑھنے کی رفتار رک گئی۔ ادھر جنرل پٹین نے شدید دباؤ ڈال کر دشمن کو کافی نقصان پہنچایا۔ آخر وسط جنوری تک جنرل رنسٹیٹ کی فوج کو شکست ہو گئی مگر جوابی حملہ کے آغاز میں اس نے جو شکنجہ اتحادیوں کے لیے تیار کیا تھا وہ انہیں اس میں پھنسانے میں کامیاب رہا اور ان کا بہت نقصان کیا۔ </h2>
<h2 dir="rtl" style="text-align: right;">
قیسی رامپوری</h2>
</div>
KHAWAJA UMER FAROOQhttp://www.blogger.com/profile/11468318155300615604noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-6558324054135046872.post-17814018907355153072019-04-10T05:22:00.000-07:002019-04-10T05:22:27.550-07:00سلطنت ِ ہسپانیہ : اسپین میں صدیوں پر محیط مسلم اقتدار کا ہمیشہ کے لیے خاتمہ ہو گیا<div dir="ltr" style="text-align: left;" trbidi="on">
<div class="separator" style="clear: both; text-align: center;">
<a href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEjrAN87ctb1ILm6nbeZyG_uU0yFVs9EEPYyMHehzZtHji3iY0uk16zDKdVucYDrHFqmUrEV9hISSGM7UQe__LdS5v8MXBriOmENr954SWyc9Xo-lGr7Z5Sak0lwOlEp1-ivoOxzSkB-bJI/s1600/Haspania+3.jpg" imageanchor="1" style="margin-left: 1em; margin-right: 1em;"><img border="0" data-original-height="487" data-original-width="960" height="202" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEjrAN87ctb1ILm6nbeZyG_uU0yFVs9EEPYyMHehzZtHji3iY0uk16zDKdVucYDrHFqmUrEV9hISSGM7UQe__LdS5v8MXBriOmENr954SWyc9Xo-lGr7Z5Sak0lwOlEp1-ivoOxzSkB-bJI/s400/Haspania+3.jpg" width="400" /></a></div>
<h2 dir="rtl" style="text-align: right;">
سلطنت ہسپانیہ یا سپینش ایمپائر تاریخ عالم کی بڑی سلطنتوں اور اولین عالمی ریاستوں میں سے ایک تھی۔ 15 ویں سے 19 ویں صدی تک دنیا کے وسیع علاقے اس کی نوآبادی رہے۔ اس سلطنت میں یورپ، امریکا، افریقہ، ایشیا اور اوقیانوسی علاقے اور نو آبادیات شامل رہیں۔ بہت سے سکالرز کا ماننا ہے کہ آئزابیلا اور شاہ فرڈیننڈ کی شادی سے قائم ہونے والا اتحاد سلطنت ہسپانیہ کی بنیاد بنا۔ یہ دونوں اپنے اپنے علاقوں کے حاکم تھے۔ انہوں نے مل کر مسلمانوں کو غرناطہ سے بے دخل کرنے میں بنیادی کردار ادا کیا۔ اسپین میں آخری مسلم امارت غرناطہ کے حکمران ابو عبداللہ نے تاج قشتالہ اور تاج اراغون کے حکمرانوں ملکہ آئزابیلا اور شاہ فرڈیننڈ کے سامنے ہتھیار ڈال دیے اور اس طرح اسپین میں صدیوں پر محیط مسلم اقتدار کا ہمیشہ کے لیے خاتمہ ہو گیا۔ </h2>
<h2 dir="rtl" style="text-align: right;">
<div class="separator" style="clear: both; text-align: center;">
<a href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEh5x5V3RhbdwJ-J4lKfb2QKQuftoD8-WzhoBFDw80t-oeNVs44mxHnrp_UBjE-8tMKmPJED64BUn937WRmGdSuzZqiJDAz7OqPTMylwIIF7eS7W1ZOAWKeW_goB7WlQbvBJl-mRu3BRgeM/s1600/Haspania++4.jpg" imageanchor="1" style="clear: right; float: right; margin-bottom: 1em; margin-left: 1em;"><img border="0" data-original-height="354" data-original-width="960" height="236" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEh5x5V3RhbdwJ-J4lKfb2QKQuftoD8-WzhoBFDw80t-oeNVs44mxHnrp_UBjE-8tMKmPJED64BUn937WRmGdSuzZqiJDAz7OqPTMylwIIF7eS7W1ZOAWKeW_goB7WlQbvBJl-mRu3BRgeM/s640/Haspania++4.jpg" width="640" /></a></div>
</h2>
<h2 dir="rtl" style="text-align: right;">
معاہدے کے تحت مسلمانوں کو مکمل مذہبی آزادی کی یقین دہانی کرائی گئی لیکن نئے حکمران زیادہ عرصے اپنے وعدے پر قائم نہ رہے اور یہودیوں اور مسلمانوں کو اسپین سے بے دخل کر دیا گیا۔ آئزابیلا اور شاہ فرڈیننڈ نے ایک متحدہ بادشاہت قائم کی۔ اس وقت ایشیا اور مشرق وسطیٰ کے اہم تجارتی مراکز پر عثمانی ترکوں کا کنٹرول تھا۔ اس لیے وہ متبادل راستوں کی تلاش میں رہے۔ عہدِ دریافت یا ایج آف ڈسکوری میں ہسپانیہ نے جزائر کیریبین پر نو آبادیاں قائم کیں اور ہسپانوی فاتحین نے امریکا میں قائم اس وقت کی مقامی سلطنتوں مثلاً ایزٹک کا خاتمہ کر دیا۔ انہوں نے مقامی آبادی کا وسیع پیمانے پر قتل عام بھی کیا۔ یوں براعظم امریکا میں ان کا کنٹرول مضبوط ہوا۔ انہوں نے بحری مہمات جاری رکھیں۔ </h2>
<h2 dir="rtl" style="text-align: right;">
بعد ازاں ان کے نتیجے میں شمالی امریکا میں کینیڈا سے لے کر جنوبی امریکا میں ٹیرا ڈیل فیگو تک ایک وسیع ہسپانوی نو آبادی قائم ہوئی۔ دنیا کے گھر چکر لگانے کی ہسپانوی مہم جس کا آغاز سولہویں صدی کے اوائل میں ہوا اور چند ہی برس میں اس میں کامیابی حاصل کر لی گئی۔ یوں ہسپانیہ نے مغرب کی جانب سے ایشیا کا بحری راستہ تلاش کر لیا۔ اب ہسپانیہ کی نظریں مشرق بعید پر تھیں، جہاں بعد ازاں اس نے گوام، فلپائن اور ملحقہ جزائر پر نوآبادیاں قائم کیں۔ ہسپانوی عروج کے دوران سلطنت نیدرلینڈز، لکسمبرگ، بلجیم، اطالیہ کے بڑے حصے، جرمنی اور فرانس کے کچھ حصوں، افریقی، ایشیائی اور اوقیانوسی مقبوضات پر پھیلی ہوئی تھی اور براعظم امریکا بڑا حصہ بھی اس کے قبضے میں تھا۔ </h2>
<h2 dir="rtl" style="text-align: right;">
سترہویں صدی میں ہسپانیہ اپنے عہد کی عظیم سلطنت بن چکی تھی۔ 1808ء میں نپولین کی زیر قیادت فرانس کے ہسپانیہ پر قبضے کے باعث امریکی نو آبادیات عارضی طور پر ہسپانیہ سے کٹ گئیں اور 1810ء سے 1825ء کے دوران متعدد تحاریک آزادی کے نتیجے میں جنوبی و وسطی امریکہ میں متعدد نو آزاد ریاستیں وجود میں آئیں۔ ہسپانیہ کے بقیہ مقبوضات کیوبا، پورٹو ریکو، فلپائن اور ہسپانوی شرق الہند 19 ویں صدی کے آخر تک ہسپانیہ کے قبضے میں ہی رہے۔ جب ہسپانوی-امریکی جنگ کے نتیجے میں ان علاقوں کا بیشتر حصہ ریاستہائے متحدہ امریکا کے قبضے میں چلا گیا تو 1899ء میں ہسپانیہ نے بحر الکاہل کے بقیہ جزائر بھی جرمنی کو فروخت کر دیے۔ </h2>
<h2 dir="rtl" style="text-align: right;">
بیسویں صدی کے اوائل تک ہسپانیہ کے مقبوضات صرف افریقہ میں رہ گئے تھے جہاں ہسپانوی گنی، ہسپانوی صحرا اور ہسپانوی مراکش بدستور اس کی غلامی میں تھے۔ 1956ء میں ہسپانیہ مراکش سے دستبردار ہو گیا اور 1968ء میں استوائی گنی کو بھی آزادی دے دی گئی۔ 1976ء میں جب ہسپانوی صحرا سے دستبردار ہوئے تو مراکش اور ماریطانیہ نے اس نو آبادی پر قبضہ کر لیا اور بعد ازاں 1980ء میں یہ علاقہ مکمل طور پر مراکش کے قبضے میں چلا گیا۔ اقوام متحدہ کے تحت یہ علاقہ اب بھی ہسپانیہ کے زیر انتظام تسلیم کیا جاتا ہے۔ جزائر کناری اور شمالی افریقہ کے ساحلوں پر کیوتا اور ملیلا کے مختصر سے علاقے ہسپانیہ کے انتظامی علاقے ہیں۔ سو اس سلطنت کا اب خاتمہ ہو چکا۔</h2>
<div>
<h2 dir="rtl" style="text-align: right;">
محمد اسلم</h2>
<div>
<br /></div>
</div>
</div>
KHAWAJA UMER FAROOQhttp://www.blogger.com/profile/11468318155300615604noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-6558324054135046872.post-64585760375218946172019-04-09T03:59:00.000-07:002019-04-09T03:59:05.811-07:00طاقتور مغل بادشاہ اکبر <div dir="ltr" style="text-align: left;" trbidi="on">
<div class="separator" style="clear: both; text-align: center;">
<a href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEgZVR3-TnXbn62A9sz1GIPXiWG-D-mspFXxpM-DMHZEjX5ncrfT3G_Pgi7BaBFcQdbAN42bXHT-QuTXrx5ruHhyphenhyphenwXYRR1l3b1_JE2dnbUSkYjWXwftepodQkdUy6spTiubDnlenK3zoJVY/s1600/Akbar.jpg" imageanchor="1" style="margin-left: 1em; margin-right: 1em;"><img border="0" data-original-height="642" data-original-width="960" height="267" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEgZVR3-TnXbn62A9sz1GIPXiWG-D-mspFXxpM-DMHZEjX5ncrfT3G_Pgi7BaBFcQdbAN42bXHT-QuTXrx5ruHhyphenhyphenwXYRR1l3b1_JE2dnbUSkYjWXwftepodQkdUy6spTiubDnlenK3zoJVY/s400/Akbar.jpg" width="400" /></a></div>
<h2 dir="rtl" style="text-align: right;">
شہنشاہ بابر نے براعظم پاکستان وبھارت کو بزور شمشیر فتح کر کے سلطنت مغلیہ کی بنیاد ڈالی۔ لیکن حقیقی معنوں میں خاندان مغلیہ کو طاقت شہنشاہِ اکبر کے ہی دور میں ملی۔ جلال الدین محمد اکبر کا باپ ہمایوں جب افغانیوں کی یورش سے گھبرا کر ایران جا رہا تھا تو 1542ء میں عمر کوٹ (سندھ) میں اکبر پیدا ہوا۔ پندرہ سال کی جلا وطنی کے بعد ہمایوں دوبارہ تخت دہلی پر قابض ہوا مگر زندگی نے وفا نہ کی اور جلد ہی سیڑھیو ں سے گر کر مر گیا۔ اکبر تیرہ برس کی عمر میں باپ کا جانشین ہوا۔<div class="separator" style="clear: both; text-align: center;">
<a href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEi4zF0OEfJgW6FD3HpTuK5lHDjiLSX8oeWacEI5-5aklHibOfFgo123f978VQNwzM4fQ6VXLkqqTL1A3-lDWf_ccdJRXI94WCOuajduEpMEP2bjvTXmBvnjLaJr1Z_qGH4rZ4M6ZjAIMfI/s1600/Akbar+2.jpg" imageanchor="1" style="margin-left: 1em; margin-right: 1em;"><img border="0" data-original-height="539" data-original-width="960" height="223" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEi4zF0OEfJgW6FD3HpTuK5lHDjiLSX8oeWacEI5-5aklHibOfFgo123f978VQNwzM4fQ6VXLkqqTL1A3-lDWf_ccdJRXI94WCOuajduEpMEP2bjvTXmBvnjLaJr1Z_qGH4rZ4M6ZjAIMfI/s400/Akbar+2.jpg" width="400" /></a></div>
</h2>
<h2 dir="rtl" style="text-align: right;">
اسے افغانیوں اور ہیموں سمیت کئی بغاوتوں کا سامنا کرنا پڑ رہا تھا۔ 14 سال کی مسلسل کوشش کے بعد اکبر مالوہ، چتوڑ، رنتھنبور، کالنجر، گجرات اور بنگال کو فتح کرنے میں کامیاب ہوا اور 1576ء تک سارا شمالی ہند اُس کے زیر نگین ہو گیا۔ 1586ء اور 1595ء کشمیر، سندھ، بلوچستان، قندھار اور اُڑلسیہ بھی مغل سلطنت میں شامل ہو گئے۔ شمال کے بعد جنوب میں دکن ، خاندیش، برار اور احمد نگر پر قابض ہو گیا۔ اُس کی سلطنت ہندوکش سے گوداوری اور بنگال سے گجرات تک پھیلی ہوئی تھی۔ اکبر نے اپنی مرکزی اور صوبائی حکومتوں کا انتظام نہایت باقاعدہ کیا۔ ہندوؤں، خاص کر راجپوتوں، سے اُس کا سلوک نہایت اچھا تھا۔ سلطنت کے بڑے بڑے عہدے ہندوؤں کو دیے گئے۔ </h2>
<h2 dir="rtl" style="text-align: right;">
ابتداء میں تو راسخ العقیدہ مسلمان تھا، لیکن بعد میں کچھ اپنی ناخواندگی کی وجہ سے اور کچھ سیاسی مصلحتوں کے پیش نظر ’’دین الٰہی‘‘ کے نام سے ایک نئے مذہب کی بنیاد رکھی، لیکن چند امیروں وزیروں کے سوا اس دین کو کسی نے قبول نہ کیا۔ اگرچہ اکبر ان پڑھ تھا، لیکن اس کو علوم و فنون کی امداد اور سرپرستی کا خاص شوق تھا۔ بڑے بڑے شعرا، مصور، موسیقار، معمار اور دوسرے با کمال اس کی بخشش اور قدر دانی سے مالا مال ہوتے رہتے تھے اور اس کا دربار دُور و نزدیک کے ماہرین فن کا مرکز بن گیا تھا۔ وہ شہزادوں کی تعلیم و تربیت پر خاص توجہ کرتا تھا۔ اکبر عظیم فتوحات ، معیار اور علم و فن کی سرپرستی کے لحاظ سے دنیا کے بڑے بڑے بادشاہوں میں سے تھا۔ وہ 1605ء میں تریسٹھ سال کی عمر پا کر فوت ہوا۔ </h2>
<h2 dir="rtl" style="text-align: right;">
محمد واجد علی</h2>
<br />
<br />
<div>
<br /></div>
</div>
KHAWAJA UMER FAROOQhttp://www.blogger.com/profile/11468318155300615604noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-6558324054135046872.post-17736201929225312172019-04-02T22:39:00.000-07:002019-04-02T22:39:17.011-07:00بیبرس : صلاح الدین ایوبی کی طرح مشہور ہوا <div dir="ltr" style="text-align: left;" trbidi="on">
<div class="separator" style="clear: both; text-align: center;">
</div>
<div class="separator" style="clear: both; text-align: center;">
<a href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEiWbE352CgtxKk2iSMIdtdWHWMyfqx0FtEXlOh2TvTYsPaXNCrDkYVkKshlretT-uP8Z5UUk89zNKS7JTZvnxW7E6lmXpZezj7TSbewEpnTTvSSzzj-24z_c_3FPvLYlSAxePw_BO9TKuI/s1600/Muslim+Generals+2.jpg" imageanchor="1" style="margin-left: 1em; margin-right: 1em;"><img border="0" data-original-height="1200" data-original-width="1428" height="335" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEiWbE352CgtxKk2iSMIdtdWHWMyfqx0FtEXlOh2TvTYsPaXNCrDkYVkKshlretT-uP8Z5UUk89zNKS7JTZvnxW7E6lmXpZezj7TSbewEpnTTvSSzzj-24z_c_3FPvLYlSAxePw_BO9TKuI/s400/Muslim+Generals+2.jpg" width="400" /></a></div>
<h2 dir="rtl" style="text-align: right;">
الملک الظاہر رکن الدین بیبرس بندقداری ایک قپچاق ترک تھے۔ ان کا لقب ابوالفتح تھا۔ وہ بحریہ مملوک سلسلۂ شاہی کے چوتھے سلطانِ مصر تھے۔ وہ دشتِ قپچاق میں ایک خانہ بدوش قبیلے میں پیدا ہوئے۔ قپچاق ترک عہد وسطیٰ میں یورپ و ایشیا کے درمیانی علاقے میں آباد تھے۔ انہوں نے 1260ء سے 1277ء تک حکمرانی کی۔ وہ ہلاکو خان اور غیاث الدین بلبن کے ہم عصر تھے۔ کہا جاتا ہے کہ بیبرس کو غلام بنا کر فروخت کیا گیا تھا۔ وہ ساتویں صلیبی جنگ میں فرانس کے لوئس نہم اورجنگ عین جالوت میں منگولوں کو شکست دینے والے لشکروں کے کمانڈر تھے۔<div class="separator" style="clear: both; text-align: center;">
<a href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEivduUJuozM9HD4AHraaR-YCg1QzTVzECTYa2VpG_oPg5TxLBo9dH4hgJZIPskmgGZQjL3K8Qmm-j5JdZ-0XWOHqAanFxO6cJkg2l0Db9Ow03unWlQ1AgXPgKogC5KCNXHEfDrxqLlKMzI/s1600/Muslim+Generals+2.jpg" imageanchor="1" style="margin-left: 1em; margin-right: 1em;"><img border="0" data-original-height="960" data-original-width="1280" height="300" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEivduUJuozM9HD4AHraaR-YCg1QzTVzECTYa2VpG_oPg5TxLBo9dH4hgJZIPskmgGZQjL3K8Qmm-j5JdZ-0XWOHqAanFxO6cJkg2l0Db9Ow03unWlQ1AgXPgKogC5KCNXHEfDrxqLlKMzI/s400/Muslim+Generals+2.jpg" width="400" /></a></div>
</h2>
<h2 dir="rtl" style="text-align: right;">
بغداد کو تباہ کرنے کے بعد جب ہلاکو خان کی فوجیں شام کی طرف بڑھیں تو بیبرس اور ایک مملوک سردار سیف الدین قطز نے مل کر عین جالوت کے مقام پر ان کو فیصلہ کن شکست دی اور منگول افواج کو نکال باہر کیا۔ بیبرس کا یہ بہت بڑا کارنامہ ہے کہ انہوں نے مصر و شام کو منگولوں کی تباہ کاریوں سے بچایا۔ انہوں نے مصری سلطنت کی شمالی سرحد ایشیائے کوچک کے وسطی علاقوں تک پہنچا دی۔ بیبرس کا ایک اور بڑا کارنامہ شام کے ساحل پر قابض یورپی حکومتوں کا زور توڑنا تھا۔ یہ حکومتیں پہلی صلیبی جنگ کے زمانے سے شام کے ساحلی شہروں پر قابض تھیں۔ نور الدین زنگی اور صلاح الدین ایوبی نے اگرچہ اندرون ملک اور فلسطین سے صلیبیوں کو نکال دیا تھا لیکن ساحلی شہروں پر ان کا اقتدار عرصے تک قائم رہا۔</h2>
<h2 dir="rtl" style="text-align: right;">
ان کو بحری راستے سے یورپ سے معاونت میسر رہتی تھی۔ بیبرس نے عین جالوت میں منگولوں کے ساتھ اتحاد کرنے کی کوشش کرنے پر 1268ء میں مسیحی سلطنت انطاکیہ کا خاتمہ کیا۔ انطاکیہ کی سلطنت کا خاتمہ 1271ء میں نویں صلیبی جنگ کا باعث بنا جس کی قیادت انگلستان کے شاہ ایڈورڈ نے کی۔ مگر وہ بیبرس سے کوئی بھی علاقہ چھیننے میں ناکام رہا۔ بیبرس نے اپنی سلطنت کو جنوب میں سوڈان کی طرف بھی وسعت دی۔ اپنی ان فتوحات اور کارناموں کی وجہ سے بیبرس کا نام مصر و شام میں صلاح الدین ایوبی کی طرح مشہور ہوا۔<br /> <br />معروف آزاد</h2>
</div>
KHAWAJA UMER FAROOQhttp://www.blogger.com/profile/11468318155300615604noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-6558324054135046872.post-22085633296462902302019-04-02T07:22:00.001-07:002021-10-19T04:43:20.378-07:00امیر تیمور کی فتوحات <div dir="ltr" style="text-align: left;" trbidi="on">
<div class="separator" style="clear: both; text-align: center;">
<a href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEjZ_DQwVJk6jAZ78JWttJ9Y5xvmFGnGw0n5rxZHlPiiDMwA5Sr6eU1lekiaZS8BIac79E50rE7-dluE9vLz-WzVS6rYZ2NWlIbm6g7_uGrsVZHKyM6muCKZ2XiOjI4f0vWaOfMH9dqhVWs/s1600/Muslim+Generals+6.jpg" imageanchor="1" style="margin-left: 1em; margin-right: 1em;"><img border="0" data-original-height="1200" data-original-width="1600" height="300" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEjZ_DQwVJk6jAZ78JWttJ9Y5xvmFGnGw0n5rxZHlPiiDMwA5Sr6eU1lekiaZS8BIac79E50rE7-dluE9vLz-WzVS6rYZ2NWlIbm6g7_uGrsVZHKyM6muCKZ2XiOjI4f0vWaOfMH9dqhVWs/s400/Muslim+Generals+6.jpg" width="400" /></a></div>
<h2 dir="rtl" style="text-align: right;">
تیموری سلطنت کو گورکانیان بھی کہا جاتا ہے۔ اس وسیع سلطنت میں ازبکستان، ایران، کاکیشیا، میسوپوٹامیا، افغانستان، وسط ایشیا کے بیشتر حصے شامل تھے۔ برصغیر، شام اور ترکی کے بعض حصے بھی اس میں شامل رہے۔ اس کی بنیاد امیر تیمور نے 1370ء سے 1405ء تک رکھی۔ امیر تیمور چاہتا تھا کہ چنگیز خان کی طرح ایک عظیم منگول سلطنت قائم کرے۔ 1467ء میں یہ سلطنت سکڑنا شروع ہوئی مگر تیمور کی اولاد چھوٹی ریاستوں پر حکمران رہی۔ سولہویں صدی میں ایسی ہی ایک ریاست فرغانہ جو اب ازبکستان کا حصہ ہے، کے شہزادے ظہیر الدین بابر نے موجودہ افغانستان کے ایک حصہ پر حملہ کیا اور ایک چھوٹی سلطنت کی بنیاد رکھی۔ 20 برس بعد وہ برصغیر وارد ہوا اور مغل سلطنت کی بنیاد رکھی۔<div class="separator" style="clear: both; text-align: center;">
<a href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEgN_E1nDfNenAPXsSBYcNTy9xcJr2MwDZpxsSDDJqtt5Hrp0kL0rqkp8KS6-LIk7KSB5o2HKO0OYCV0Q0g63H4lOoE7ilmxkBc_sE9sDb0SrrVbfu377cf0Qtl3ZYEKhM2xvL7FHxM39OI/s1600/Muslim+Generals+4.jpg" imageanchor="1" style="margin-left: 1em; margin-right: 1em;"><img border="0" data-original-height="960" data-original-width="1280" height="300" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEgN_E1nDfNenAPXsSBYcNTy9xcJr2MwDZpxsSDDJqtt5Hrp0kL0rqkp8KS6-LIk7KSB5o2HKO0OYCV0Q0g63H4lOoE7ilmxkBc_sE9sDb0SrrVbfu377cf0Qtl3ZYEKhM2xvL7FHxM39OI/s400/Muslim+Generals+4.jpg" width="400" /></a></div>
</h2>
<h2 dir="rtl" style="text-align: right;">
تاریخ میں دو سلطنتیں تیموری سلطنت کہلاتی ہیں جن میں سے پہلی امیر تیمور نے وسط ایشیا اور ایران میں قائم کی جبکہ دوسری ظہیر الدین بابر نے ہندوستان میں سلطنت مغلیہ کے نام سے قائم کی۔ امیر تیمور دریائے جیحوں کے شمالی کنارے پر واقع شہر سبز میں 1336ء میں پیدا ہوا۔ وہ ایک اچھا سپاہی اور سپہ سالار تھا۔ وہ ترکستان اور موجودہ افغانستان کے بڑے حصے پر قابض ہونے کے بعد 1366ء میں بلخ میں تخت نشین ہوا۔ بلخ میں تخت نشین ہونے کے بعد تیمور نے ان تمام علاقوں اور ملکوں پر قبضہ کرنا اپنا حق اور مقصد قرار دیا جن پر چنگیز خان کی اولاد حکومت کرتی تھی۔ اس غرض سے اس نے فتوحات اور لشکر کشی کے ایسے سلسلے کا آغاز کیا جو اس کی موت تک جاری رہا۔ </h2>
<h2 dir="rtl" style="text-align: right;">
تیمور کے ابتدائی چند سال چغتائی سلطنت کے باقی ماندہ حصوں پر قبضہ کرنے میں صرف ہو گئے۔ اگلے چند سالوں میں اس نے کاشغر، خوارزم، خراسان، ہرات، نیشاپور، قندھار اور سیستان فتح کر لیا۔ 1386ء میں اس نے ایران کی مہم کا آغاز کیا اور اس مہم کے دوران پورے شمالی ایران پر قابض ہو گیا۔ روس کی مہم سے واپسی کے بعد تیمور نے 1392ء میں ایران میں نئی لشکر کشی کا آغاز کیا۔ اس مہم کے دوران اس نے ہمدان، اصفہان اور شیراز فتح کیا۔ آل مظفر کی حکومت کا خاتمہ کیا اور بغداد اور عراق سے احمد جلائر کو بے دخل کیا۔ اس طرح وہ پورے ایران اور عراق پر قابض ہو گیا۔ </h2>
<h2 dir="rtl" style="text-align: right;">
تیمور ایران کی مہم سے فارغ ہوکر ابھی تبریز واپس ہی آیا تھا کہ اس کو اطلاع ملی کہ تختمش نے حملہ کر دیا ہے۔ تیمور نے دریائے تیرک کے کنارے اسے شکست فاش دی۔ 1398ء میں تیمور ہندوستان کو فتح کرنے کے ارادے سے روانہ ہوا۔ ملتان اور دیپالپور سے ہوتا ہوا 1398ء کو دہلی فتح کر لیا۔ اگلے سال اس نے شام فتح کر لیا۔ 1402ء میں تیمور نے عثمانی سلطان بایزید یلدرم کو جنگ انقرہ میں شکست دی اور سمرقند واپس آنے کے بعد چین پر حملے کی تیاریاں شروع کر دیں۔ اس سفر کے دوران وہ بیمار پڑ گیا اور 18 فروری 1405ء کو انتقال کر گیا۔ </h2>
<h2 dir="rtl" style="text-align: right;">
معروف آزاد</h2>
<br />
<div>
<br /></div>
</div>
KHAWAJA UMER FAROOQhttp://www.blogger.com/profile/11468318155300615604noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-6558324054135046872.post-12915990866787897422019-04-02T07:18:00.003-07:002021-10-19T06:13:29.907-07:00ولید بن عبد الملک : اسلامی دنیا کے عروج میں اہم مقام <div dir="ltr" style="text-align: left;" trbidi="on">
<div class="separator" style="clear: both; text-align: center;">
<a href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEirq6CWxUcn9UM6tYGR6YCQrj_Ucdv-7iqTZ5ZoYEkZnD-qbBzUWY6beH-XmtlioRWOKn0XOnYuMUImZWwsPxSPQcQ4KbSRWDmkKJo-6yqkj5McogXGPc4lliQVjT9sIlrijGIrDBwH57w/s1600/Muslim+Generals+3.jpg" imageanchor="1" style="margin-left: 1em; margin-right: 1em;"><img border="0" data-original-height="960" data-original-width="1280" height="300" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEirq6CWxUcn9UM6tYGR6YCQrj_Ucdv-7iqTZ5ZoYEkZnD-qbBzUWY6beH-XmtlioRWOKn0XOnYuMUImZWwsPxSPQcQ4KbSRWDmkKJo-6yqkj5McogXGPc4lliQVjT9sIlrijGIrDBwH57w/s400/Muslim+Generals+3.jpg" width="400" /></a></div>
<h2 dir="rtl" style="text-align: right;">
ولید بن عبد الملک 668ء میں مدینہ منورہ میں پیدا ہوئے۔ وہ بنو امیہ کے چھٹے خلیفہ تھے، انہوں نے 705ء سے 23 فروری 715ء میں اپنے انتقال تک حکمرانی کی۔ انہیں وسیع سلطنت ورثے میں ملی اور انہوں نے والد کی طرح فتوحات کا سلسلہ جاری رکھا۔ ان کے دورحکومت میں اندلس اور سندھ کے علاوہ وسط ایشیا کے ماورا النھر کہلانے والے علاقوں کو فتح کیا گیا۔ مشرق و مغرب میں ہونے والی فتوحات کی وجہ سے تاریخ دان ان کی کامیابیوں کو اسلامی دنیا کے عروج میں اہم مقام دیتے ہیں۔ 711ء تک مسلمان افواج بربر قوم کی مدد سے جبل الطارق عبور کر چکی تھیں اور انہوں نے جزیرہ نما ابیریا میں فتوحات کا سلسلہ جاری کر رکھا تھا۔ تقریباً پانچ برسوں میں اس جزیرہ نما کا زیادہ تر حصہ مسلم افواج کے قبضے میں تھا۔<div class="separator" style="clear: both; text-align: center;">
<a href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEhjqk5vQahcb9c0zaWHec_iEEtAGf6P9YnDSGapRPjadA-Mw_u1b7DgXHmwYbXl278fqcUEWURDuSvTVtPtd6FDswBPq5n_p_nS3GQ_I0mXBgS1M5pU1pPtrHKUujjepe1c_zGfXAsXw7E/s1600/Muslim+Generals+5.jpg" imageanchor="1" style="margin-left: 1em; margin-right: 1em;"><img border="0" data-original-height="533" data-original-width="800" height="266" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEhjqk5vQahcb9c0zaWHec_iEEtAGf6P9YnDSGapRPjadA-Mw_u1b7DgXHmwYbXl278fqcUEWURDuSvTVtPtd6FDswBPq5n_p_nS3GQ_I0mXBgS1M5pU1pPtrHKUujjepe1c_zGfXAsXw7E/s400/Muslim+Generals+5.jpg" width="400" /></a></div>
</h2>
<h2 dir="rtl" style="text-align: right;">
ولید بن عبدالملک نے فوجی نظام کو بہتر بنانے کے ساتھ ساتھ بحری بیڑے کو توسیع دی ۔ ان کے دور میں سلطنت کے اندر خوش حالی آئی۔ ولید بن عبدالملک نے علوم کی سرپرستی کی۔ انہوں نے مسجد نبویؐ کی تعمیر کا حکم دیا اور اسے پایۂ تکمیل تک پہنچایا۔ یہ کام عمر بن عبدالعزیز کے ذمہ تھا جنہوں نے ارد گرد کی زمین کو خرید کر اسے وسعت دی اور دوسرے ممالک سے کاریگر بلوائے۔ مسجد اتنی شاندار بنائی گئی کہ اس کی شہرت دور دور تک پھیل گئی۔ ولید بن عبدالملک کے دور میں تعمیر ہونے والی دمشق کی جامع مسجد حسن و جمال کا ایک مرقع تھی۔ انہوں نے سڑکیں اور سرائیں بنوائیں اور بہت سے شفاخانے قائم کئے ۔ </h2>
<div>
<h2 dir="rtl" style="text-align: right;">
معروف آزاد</h2>
</div>
<div>
<br /></div>
</div>
KHAWAJA UMER FAROOQhttp://www.blogger.com/profile/11468318155300615604noreply@blogger.com0